ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

آزادی مارچ: پیپلزپارٹی دھرنے کا حصہ کیوں نہیں اور شہباز شریف کیوں ہچکچا رہے ہیں؟

مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف مہم کے سلسلے میں دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

ان کا موٴقف ہے کہ ‘وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے، اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔’ اور اسی لیے وہ ’آزادی مارچ‘ کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔

فضل الرحمان کے مطابق ان کی مذہبی و سیاسی جماعت جمیعتِ علما اسلام کے کارکنان اور حامی 27 تاریخ کو ملک کے مختلف شہروں سے ریلیوں کی صورت میں نکلیں گے اور تین روز بعد 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

جے یو آئی ایف کے قائد کے تاحال سامنے آنے والے بیانات کے مطابق وہ وہاں طویل قیام کا اراداہ رکھتے ہیں تاہم فضل الرحمان اکیلے اسلام آباد نہیں آ رہے۔

انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ چلنے کو کہا ہے۔ بنیادی طور پر اس مارچ کا منصوبہ بھی ‘حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کی طرف سے متحدہ جدوجہد کے ارادے سے وجود میں آیا تھا۔’

تاہم مولانا فضل الرحمان کی دعوت کے بعد سے حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں گومگو کا شکار ہیں۔ جائیں یا نہ جائیں، اس سوال پر دونوں جماعتوں میں مشاورت کا طویل دور ہوا ہے۔

اس کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت کی طرف سے جے یو آئی کی ‘آزادی مارچ’ کی حمایت کا اعلان تو کیا گیا، مگر اگلا سوال یہ تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنے کا فیصلہ کر لیا تو کیا کیا جائے گا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ اور حسن مرتضٰی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘چیئرمین بلاول بھٹو زرداری واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔ وہ مارچ کی حمایت کریں گے۔‘

پی پی پی کے صوبہ پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی کے مطابق ‘ہم ان کی ریلیوں کا استقبال بھی کریں گے اور اگر انھوں نے دھرنے میں خطاب کے لیے مدعو کیا تو چیئرمین صاحب خطاب بھی کریں گے۔ مگر ہماری جماعت دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔’

پیپلز پارٹی دھرنے میں شامل کیوں نہیں ہو گی؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نوید قمر نے حال ہی میں ایک مقامی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دھرنے کی سیاست کے مخالف ہیں اور ’جمہوری حکومت چاہے کوئی بھی ہو اس کو دھرنے یا کسی اور غیر جمہوری طریقے سے ہٹانا درست نہیں۔’

تاہم قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت جے یو آئی ایف کا ساتھ اس لیے دے رہی ہے کہ ‘وہ آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں۔ پی پی پی اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اب حکومت کو چلے جانا چاہیے۔ ان کے رہنے سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو رہا ہے۔’

حزبِ اختلاف

پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی حامی ہے لیکن دھرنے کے منصوبے میں شریک نہیں

تو اس احتجاج کے لیے جی یو آئی ایف ہی کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود رواں ماہ کی 18 تاریخ کو کارساز کے مقام پر ایک جلسے سے ایک مارچ کا آغاز کر رہی ہے۔’

مسلم لیگ ن نے کیا فیصلہ کیا

ن لیگ کی طرف سے اس سلسلے میں تاحال کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم جمعرات کی شب مقامی ذرائع ابلاغ پر اس حوالے سے بیانات اور خبریں گردش کرتی رہیں کہ ‘نواز شریف اپنی جماعت کے مارچ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جبکہ شہباز شریف اس کے حق میں نہیں۔’

ن لیگ کے رہنماوٴں کے مطابق جماعت کے معاملات میں حتمی فیصلہ نواز شریف کا ہوتا ہے اور ‘اس معاملے میں بھی ان کا ہی ہو گا۔’ مسلم لیگ نون کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ان کی جماعت مولانا فضل الرحمان کے مارچ میں شامل ہو گی۔‘

بدھ کو ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں ان کی جماعت کی ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس میں اکثریت کا خیال تھا کہ ہمیں جے یو آئی ایف کے مارچ میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔’

اجلاس کی یہ سفارشات لے کر شہباز شریف نے جمعرات کے روز ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کرنا تھی تاہم وہ نہیں گئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ پر آنے والی خبروں کے مطابق ‘ان کی کمر میں تکلیف تھی۔’

تاہم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نواز شریف سے ملاقات کے لیے گئے اور جیل کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جو نواز شریف سے پیار کرتا ہے وہ دھرنے میں جائے گا۔’

تو کیا اس کو ن لیگ اور نواز شریف کا بھی فیصلہ تصور کیا جائے؟

ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ ‘بتا چکے ہیں کہ قائد محمد نواز شریف کی رہنمائی میں پارٹی فیصلے کا اعلان صدر شہباز شریف کریں گے۔’

آل پارٹیز کانفرنس

سٹریٹ پاور کے حامل مولانا فضل الرحمان کو اخلاقی جواز ن لیگ اور پیپلز پارٹی فراہم کر سکتے ہیں

نواز شریف کیوں شمولیت چاہتے ہیں؟

تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ‘نواز شریف کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ بدترین آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوا۔’

انھوں نے کہا کہ ’حکومت کسی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں تو ن لیگ کے کارکنان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کب تک اپنی گردن پیش کرتے رہیں گے۔’

تاہم کئی برس سے ن لیگ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا ہے کہ ن لیگ کے چند رہنما جو شہباز شریف کے موقف کی تائید کرتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو حالات کے بارے میں غلط بتایا جا رہا ہے۔

شہباز شریف اعلان کیوں نہیں کر رہے؟

سرکاری طور پر ن لیگ کا موٴقف ہے کہ وہ صحت کی خرابی کی وجہ سے نواز شریف سے ملاقات نہیں کر پائے تاہم ن لیگ کے چند رہنماؤں نے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے بی بی سی کو بتایا کہ ‘شہباز شریف دھرنے میں شرکت کے مخالف ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس میں سے ن لیگ کو کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔’

نون لیگ کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق ‘شہباز شریف کی رائے ابتدا سے تصادم کی سیاست کے مخالف رہی ہے اور وہ خاصی حد تک مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ‘آخری فیصلہ وہی ہو گا جو نواز شریف کا ہو گا اور جب نواز شریف کہیں گے تو سب جایئں گے۔ شہباز شریف بھی جائیں گے۔’

اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف دھرنے میں شمولیت کے ’مخالف‘ کیوں ہیں۔

مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہوا ہے

تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ اس وقت نون لیگ میں دو نقطۂ نظر موجود ہیں۔ ‘ایک وہ جو کہتا ہے دھرنے میں شمولیت کر کے سر دھڑ کے بازی لگا دی جائے، دوسرا وہ جو شہباز شریف کے موقف کا حامی ہے۔

’وہ کہتے ہے کہ اگر دھرنے کی وجہ سے کوئی گڑبڑ ہو جاتی ہے تو ملک میں وہی پرانے سنہ 1990 کی سیاست والے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا ‘شہباز شریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ اس موقف کے خلاف ہو گا جو انھوں نے سنہ 2014 میں اس وقت اپنایا تھا جب ان کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا اور وہ موقف یہ تھا کہ کسی بھی جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹانا غلط ہے۔’

مجیب الرحمان شامی کے مطابق سوال یہ بھی ہے کہ ‘اگر دھرنا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس کا ملبہ کس پر گرے گا۔ مولانا تو نہ اس فلم کے ہیرو ہیں نہ ولن، اصل حریف تو ن لیگ ہے تو ملبہ اس پر گرے گا۔’

‘مولانا کی مٹھی میں کچھ نہ کچھ بند ہے’

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں حالات کا رخ دیکھ رہے ہیں اور ان کے یہ تحفظات ہیں کہ کل کو جو صورتحال بننے جا رہی ہے اس میں کچھ بھی ہوا یا کسی نے رابطہ کیا تو قیادت تو مولانا فضل الرحمان کی ہو گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے تحفظات یہ بھی ہیں کہ ‘مولانا فضل الرحمان جس اعتماد کے ساتھ دھرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں ضرور ان کی مٹھی میں کچھ نہ کچھ بند ہے جو وہ کھولنا نہیں چاہ رہے۔

‘وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس طرح ان کی تیاریاں ہیں تو ضرور یہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے جس سے جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔’

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں