ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

بابری مسجد کیس کا فیصلہ، متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے مسلمانوں کو پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت کی ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا۔

مذکورہ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڈے، ڈی وائی چندر چوڑ، اشوک بھوشن اور ایس عبد النذیر شامل تھے۔

چیف جسٹس آف انڈیا کے مطابق یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی جب کہ جس جگہ یہ مسجد تعمیر کی گئی وہاں مسلمانوں کی کوئی تعمیر نہیں تھی۔

عدالت نے حکم دیا کہ سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔ عدالت نے 2.77 ایکڑ متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مندر کی تعمیر کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کرنے کے اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ بابری مسجد کمیٹی کے ظفریاب جیلانی نے بھارتی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

/**/
/**/
راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کاروں کا پونے میں اجتماع کا منظر۔(فائل فوٹو)

پاکستان کا ردعمل

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دفتر خارجہ فیصلے کی تفصیلات کا جائزہ لے کر اپنا ردعمل دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی(بی جے پی) نے 2014 میں اپنے انتخابی منشور میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کے دن بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ سنانا تنگ نظری اور تعصب کی مثال ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی سپریم کورٹ مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا واحد سہارا تھی۔ لیکن ہندو انتہا پسند سوچ نے آج وہ سہارا بھی چھین لیا ہے۔

بھارت میں سیکیورٹی سخت

سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے اہم کیس کا فیصلہ سنانے سے قبل ایودھیا سمیت بھارت بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اتر پردیش کی حکومت نے پوری ریاست کے تمام تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایودھیا کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پولیس سربراہ کے مطابق وہاں 20 ہزار جوان تعینات ہیں۔ ڈرون اور سی سی ٹی وی کیمروں سے بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔

فیصلہ سنانے والے ججز اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کو ’زیڈ پلس‘ سیکیورٹی دی گئی ہے۔

دارالحکومت دہلی اور ممبئی سمیت دیگر شہروں میں بھی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے۔

چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

بابری مسجد تنازع تھا کیا؟

سولہویں صدی میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ان کے مذہبی رہنما رام جی پیدا ہوئے تھے۔ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ پہلے وہاں مندر تھا جسے مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کی تھی۔

مسلمان اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔

یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد کی اپیل پر بھارت کے شہر ایودھیا میں واقع مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔

بابری مسجد فائل فوٹو

بابری مسجد فائل فوٹو

ثالثی کمیٹی کا قیام

بھارت کی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کے لیے رواں سال مارچ میں فریقین پر مشتمل ثالثی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔

ثالثی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایف ایم آئی کلیف اللہ کے علاوہ ہندو مذہبی رہنما شری روی شنکر اور ایک سینئر وکیل سری رام پانچو کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

ثالثی کمیٹی نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔ تاہم، چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ریمارکس دیے تھے کہ ثالثی کمیٹی کی رپورٹ نے تنازع کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ ثالثی کمیٹی کے اراکین نے بھی قابل عمل حل پیش کرنے میں ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں