ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

قائد اعظم کا یوم پیدائش اور قومی زبان اردو

پاکستان قومی زبان تحریک کی شاندار تقریب

رپورٹ: محمد اکرم افضل: بانی پاکستان قائد اعظم کے یوم پیدائش کی مناسبت سے پاکستان قومی زبان تحریک کی جانب سے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کے بعد نعت رسول مقبول ۖ پیش کی گئی۔ تقریب کی نظامت پروفیسر رضوان الحق نے کی۔ عزیز ظفر آزاد صدر پاکستان قومی زبان تحریک نے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ سے متعلق تفصیل پیش کی اور بتایا کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے کئی برس قبل ہی ہندو بنیے کے خیالات کو بھانپ لیا اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ پیش کیا اور اس کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو وقف کر دیا اور بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ہی پاکستان کے قیام کا سبب بنا، انگریز سے آزادی حاصل کی اور ہندو بنیے سے بھی نجات حاصل کی۔ مگر ہم نے قائد اعظم کے نظریہ کو بھلا دیا جس کی وجہ سے ہم ایک قوم کی بجائے کئی قوموں میں بٹ گئے اور حاصل کی گئی اصل آزادی بھی قائم نہ رکھ سکے۔ فاطمہ قمر صدر شعبہ خواتین پاکستان قومی زبان تحریک نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ قائد اعظم کے نظریے کے مطابق پاکستان قومی زبان تحریک اپنی سرگرمیوں کو ملک بھر میں قومی زبان کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے نو منتخب رکن افضل خان نے اردو زبان میں حلف اٹھایا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اردو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان ہے بلکہ یہ ایک عالمی زبان بھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کا واحد نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم اپنے قیام کے مقصد کو فراموش کر دیتی ہے اور یہی حال ہماری قوم کا ہو چلا ہے۔ قائد اعظم کی قیادت میں ہم نے پاکستان حاصل کیا اور ان ہی کے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ہم نے قائد کے فرمودات سے روگردانی کی جس کی وجہ سے ہمارا ملک دو لخت ہو گیا۔ ہمیں قائد اعظم کے نظریہ کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستان کی قومی زبان کو فی الفور ملک بھر میں نافذ کرنا ہو گا اور اسی طرح ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے۔ فاطمہ قمر نے بتایا کہ قائد اعظم کرپشن اور اقرباپروری کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو نافذ کرنے کا حکم دیا تھا مگر ہماری تمام حکومتوں نے اردو کے نفاذ سے رو گردانی کی یہاں تک کہ عدالت عظمی کا فیصلہ آ جانے کے باجود ہم اردو کے نفاذ سے روگردانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن ہم ابھی تک پاکستان کی شہ رگ کو ہندو کے پنجہ استبدات سے نہیں چھڑا سکے۔ انہوں نے قائد اعظم کی وطن عزیز کے لئے کی گئی قربانیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا جس میں اہم قابل ذکر امر یہ کہ قائد اعظم نے اپنی بیماری کا علاج قومی خزانہ سے کروانے سے انکار کر دیا کہ قومی خزانہ قوم کی امانت ہے اس سے شخصی علاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام اور اس کی ترقی کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی۔ زاہد اسلم خان ایڈووکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم قائد اعظم کا ذکر کر رہے ہیں لیکن ہم ان کے فرمودات بالخصوص قومی زبان اردو کے نفاذ سے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم قول و فعل کے تضاد کا شکار کیوں ہیں۔ معروف صحافی روف طاہر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ قائد اعظم اور ان کی ہمشیرہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ انہیں جب اور جہاں بھی ان دونوں بہن بھائیوں کے آنے کی خبر ملتی وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کے استقبال کے لئے امڈ آتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم کے فرمودات پر کماحقہ عمل پیرا ہونا چاہیے بالخصوص ان کے قول و عمل، تنظیم اور اتحاد اور ان کے دو قومی نظریے کی حفاظت اور قومی زبان کے نفاذ کے فرمودات ہیں۔ معروف صحافی قیوم نظامی نے بتایا کہ قائد اعظم کے دل میں اللہ کے خوف کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ محمد علی جناح ایک بلند پایہ وکیل تھے۔ انہوں نے اپنے قول و فعل میں امانت اور دیانت کے ساتھ زندگی گزاری۔ کسی ایک فرد نے کبھی بھی نہیں کہا کہ قائد اعظم نے کبھی جھوٹ یا وعدہ خلافی کی ہو۔ آپ پہلے جناح تھے بعد میں قائد اعظم ۔ قائد اعظم کو لارڈ مونٹ بیٹن نے متحدہ ہندوستان کے وزیر اعظم بنانے کی پیش کش کی جسے قائد اعظم نے فی الفور ٹھکرا دیا۔ ہم نے قیام پاکستان کا آغاز کانٹوں کے استعمال سے کیا اور اب ہم ایٹمی قوت ہیں۔ آج جن مسائل کے ہم شکار ہیں ان کے مرکزی کردار وہ افراد ہیں جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرمودات کو بھلا بیٹھے تھے۔ جو خالق ہوتا ہے اس کے فرمودات کو بھلا دینا ہی ہمارے قومی مسائل کی جڑ ہے۔ آپ نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا جسے بعد میں دستور ساز اسمبلی نے بھی اردو کو قومی زبان قرار دیا اور اس قرار داد کو مشترکہ طور پر منظور کیا۔قائد اعظم ایک قوم، ایک زبان کے نظریے پر قائم تھے۔ آئین میں اردو کو قومی زبان قرار دئیے جانے کے باوجود اس کو نافذ نہ کرنا صریحا غداری ہے۔ اسلم زار ایڈووکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم قائد اعظم کے یوم پیدائش منا رہے ہیں تو دسمبر کے حوالے سے ہمیں سقوط ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول کے حادثات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا لیکن ہم بالخصوص ہمارے سابقہ و موجودہ حکمران قائد کے اس فرمان کو فراموش کر چکے ہیں۔ انہوں نے قائد اعظم کے اس فرمان کا ذکر کیا کہ وہ پہلے سوچتے تھے پھر کوئی بات کرتے تھے اور جب وہ کوئی بات کرتے تھے تو اس پر قائم رہتے تھے جبکہ بعد میں آنے والے اور بالخصوص آج کے حکمران اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔ انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں مولانا مودودی کے اس بیان کا بھی ذکر کیا کہ قائد اعظم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان پاکستان کے قیام کی اساس ہے اور پاکستان کی وحدت کی بنیاد جو دو قومی نظریے سے بھی پہلے موجود تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہندووں نے اردو زبان کو قبول نہیں کیا لیکن ہمیںاس ملک میں اردو نافذ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 73 سال ہو گئے ہیں لیکن ہم اردو کے نفاذ میں مخلص نہیں ہیں۔ ہمیں اردو کے نفاذ کا آغاز کر دینا چاہیے اور جو بھی مشکلات بعد میں آئیں ان کا مناسب حل نکالا جا سکتا ہے۔ امیر احمد خان نے میاں محمد مرحوم اور علامہ اقبال کے اشعار پیش کئے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ قائد اعظم نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر کے ممتاز قائد تھے۔ ان کی غیر معمولی قیادت کا اعتراف دنیا بھر کے مورخین اور سربراہان ممالک کرتے ہیں۔ قائد نے اردو کو قومی زبان قرار دیا ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے فرمودات پر بلا چوں و چرا عمل کریں لیکن افسوس کہ ہم آج تک اردو زبان کے نفاذ سے فرار کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔اردو کے حوالے سے لاہور کی تاریخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو لکھنے والا نہ صرف کتا بت کر رہا ہوتا ہے بلکہ وہ عبادت کر رہا ہوتا ہے کیونکہ کعبہ کا طواف بھی دائیں سے بائیں ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا اردو زبان جو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھی جاتی ہے ۔ اردو دنیا کی تیسری زبان بن چکی ہے اس میں اصطلاحات کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے اس کا نفاذ بآسانی ممکن ہے، فرق صرف نیت کا ہے۔اردو بہت عرصہ قبل سے ہمہ گیر جماعت بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ جواہر لال نہرو نے کہا ہندوستان میں دو فریق ہیں کانگرس اور برطانیہ جس کے جواب میں قائد اعظم ایک اور فریق ہے وہ ہے ہندوستانی مسلمان۔انہوں نے کہا اردو کی مخالفت میں جو کہا جاتا ہے کہ اردو پاکستان میں بولی نہیں جاتی تو میں اسکا جواب یہ کہوں گا کہ اردو صرف بولی نہیں بلکہ لکھی بھی جاتی ہے اور سمجھی بھی جاتی ہے کراچی میں ڈیڑھ کروڑ عوام اردو بولتی ہے، پنجاب اور دیگر صوبوں کی اکثریت بھی اسے رابطے کی زبان کی حیثیت میں بولتی ہے۔ رانا امیر ایڈووکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ جمہوری جد و جہد کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا۔ قائد اعظم کا قوم پر احسان ہے کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے قطعا کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہمیں صاحب حیثیت اور جائیداد بنایا۔ انہوں نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا لیکن ہم احسان فراموش ہیں کہ قائد کے فرمان کہ اردو کو قومی زبان بنایا جائے کو فراموش کر دیا جبکہ یہ ہمارے ملکی آئین کا حصہ بھی ہے اور ملک کی اعلی ترین عدالت نے چار برس قبل ایک فیصلے کے ذریعے اس کے ملک بھر میں اس کے مکمل نفاذ کا حکم بھی جاری کردیا تھا۔پاکستان قومی زبان تحریک کی جانب سے کوسمو کلب کے صدر ڈاکٹر افتخار بخاری کا شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے یہ تقریب منعقد کرنے کے لئے کاسمو کلب کی پیشکش کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر افتخار بخاری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان قومی زبان تحریک کے کارکنان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس تقریب کے یہاں انعقاد پر انہیں دلی مسرت ہوئی ہے۔ محمد جمیل بھٹی سابق اکاو نٹنٹ جنرل پنجاب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ اس تقریب کے مقررین میں نامور صحافی، قانون دان اور تاریخ دان ہیں اور ہمیں ان کے قیمتی خیالات سے آگاہی ہوئی بالخصوص ان سب نے قائد اعظم کی زندگی کے چیدہ چیدہ پہلووں کا احاطہ کیااور بالخصوص قومی زبان اردو کے نفاذ کے لئے جد و جہد کو سراہاتقریب کے اختتام پر قائد اعظم کے یوم پیدائش کی مناسبت سے کیک کاٹا گیا۔ یوم قائد اعظم اور قومی زبان” پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کے ممتاز دانشور’ صحافی ‘ ادبی شخصیات اور قانون دانوں نے شرکت کی۔ تقریب کا اختتام اجتماعی دعا میںوطن عزیز کی سلامتی، امن اور ترقی کے لئے دعا کی گئی اور قائد اعظم کی بلندی درجات اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمانے کی دعا کی گئی۔

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں