ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

سینما گھروں کی ویرانی کب ختم ہوگی؟

پاکستانی فلم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جس جوش اور جذبے کے ساتھ اس شعبے سے وابستہ افراد نے شب و روز محنت کرتے ہوئے اپنی ایک منفرد شناخت بنائی، بلکہ اگر پڑوسی ملک بھارت کو ٹف ٹائم دینے کی بات کی جائے تو شاید یہ بات غلط نہ ہوگی۔

ہمارے پاس وسائل کم تھے لیکن باصلاحیت لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایکٹنگ، ڈائریکشن، میوزک، رائٹنگ، شاعری اور دیگر شعبوں میں ایسے قابل لوگ کام کر رہے تھے کہ انہوں نے وسائل کی کمی کو کبھی اچھی فلم بنانے میں رکاوٹ نے بننے دیا۔ یہی وجہ ہے پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں تک پاکستانی فلم کا ستارہ ہمیشہ عروج پر رہا۔ ایک سے بڑھ کر ایک فلم سینما گھروں کی زینت بنی بلکہ ان فلموں کی کہانی اور میوزک نے پاک و ہند میں اپنی دھوم مچائے رکھی، اسی لئے تو ان دہائیوں میں بننے والی اکثر بھارتی فلموں کی کہانی اور میوزک پاکستانی فلموں سے چرایا جاتا تھا۔ اس طرح کی لاتعداد مثالیں ہمیں ماضی میں ملتی ہیں۔

لیکن آج جس دور سے پاکستانی فلم اور سینما انڈسٹری گزر رہی ہے، اس پرصرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ ہمارے ملک میں سینما گھروں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ امپورٹ قوانین کے تحت نمائش کیلئے پیش کی جانے والی ہالی ووڈ سٹارز کی فلمیں تھیں۔ ان فلموں کے بہترین بزنس کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے کاروباری اداروں نے یہاں سرمایہ کاری شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے بڑے شہروں میں جدید طرز کے سینما گھر بننے لگے۔ ان تعداد میں جہاں مسلسل اضافہ ہورہا تھا، وہیں پاکستانی فلم کے سپورٹر اور دوراندیش شخصیات اکثر کہتے سنائی دیتے تھے کہ مستقل بہتر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو امپورٹڈ فلموں کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کو بھی سپورٹ کریں ۔۔۔۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ کسی نے ان کی ایک نہ سنی اور راتوں رات پیسے کمانے کی دھن میں آگے بڑھتے گئے۔

دوسری جانب پاکستانی فلموں کے پروڈیوسر  جدید سنیما انڈسٹری کا رویہ دیکھ کر مایوس ہونے لگے بلکہ انہیں بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ پاکستانی فلم کی کہانی اور میوزک اچھا ہے یا برا اس کا فیصلہ تو فلم بینوں نے کرنا تھا لیکن اینٹی پاکستانی فلم گروپ نے عوامی رائے کے بغیر ہی پاکستانی فلم کو نمائش کیلئے ایسا شیڈول دیا کہ اس کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کو اگر سوچی سمجھی سازش کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سازش کامیاب رہی لیکن آج بھارتی فنکاروں کی فلمیں نہ ہونے کی وجہ سے سینما گھروں کو تالے لگ چکے ہیں۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ البتہ پاکستانی فلموں کو ساتھ لے کر چلتے تو شاید حالات اتنے برے نہ ہوتے۔

موجودہ دور کی بات کریں تو کورونا وائرس کی وجہ سے چھ ماہ تک لاک ڈاؤن رہا اور زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح فنون لطیفہ کی سرگرمیاں بھی ماند پڑی رہیں۔ فلم، تھیٹر اور سینما گھر بند رہے، ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے اور کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سینما گھر بھی بند کر دیئے گئے۔ یہ صورتحال ملک بھر میں رہی اور تاحال جاری ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے لاک ڈاؤن پر پابندی کے خاتمے کے بعد سینما گھروں کو بھی کام کرنے کی اجازت مل چکی لیکن نئی فلمیں نہ ہونے کی وجہ سے سینما گھر بند ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بہت سے فلمسازوں نے اپنی فلمیں مکمل کر رکھی ہیں لیکن بہتر کاروبار نہ ہونے کے خوف کے باعث وہ اپنی فلموں کی نمائش کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر فلمسازوں نے اپنی فلمیں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کیلئے بنائی تھیں، مگر لاک ڈاؤن میں دونوں عیدیں گزریں جس کی وجہ سے فی الحال کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک اور بہت اہم ایشو یہ بھی ہے کہ بہت سے سینما گھروں کی جانب سے فلمسازوں کو تاحال فلم کے بزنس کی رقوم ادا نہیں کی گئی ہیں، اس کی وجہ سے بھی نئی فلموں کی نمائش نہیں ہو پارہی۔

اس صورتحال پر پاکستان فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین فلمساز چوہدری اعجاز کامران کا کہنا ہے کہ فلم اور سینما کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں پاکستانی فلم اور سینما کا ماضی بہت شاندار تھا۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر سرکٹ میں موجود سینما گھروں میں مختلف فلمیں لگا کرتی تھیں اور ان کی نمائش کئی ہفتے جاری رہتی تھی۔ بھرپور کاروبار کی وجہ سے فلم میکر اور سینما مالکان کو منافع ہوتا تھا۔ اسی لئے تو سینما مالکان نئی فلم شروع ہونے سے پہلے باقاعدہ شیئر دیتے تھے اور اس طرح سے یہ کاروبار بہتر انداز سے چلتا تھا۔ لیکن اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔

جدید طرز کی سینما انڈسٹری کاروبار کے کچھ ایسے ” جدید ” طور طریقے ساتھ لے کر میدان میں اتری کہ انہوں نے فلم اور سینما کا مضبوط رشتہ اپنے ” قوائد و ضوابط” کے ذریعے ختم کردیا۔ پہلے سینما مالکان سرمایہ کاری کرتے تھے جبکہ اب سرمایہ کاری تو دور کی بات نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کو بزنس کی رقم تک نہیں ملتی۔ حالانکہ امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانیوالی بھارتی فنکاروں کی فلموں کی نمائش کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے رہے ہیں۔ ہم غور کریں تو یہ مکافات عمل ہے، ہم نے اپنے فلم میکرز اور فنکاروں کو گھروں پر بیٹھانے کیلئے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ آج اس کی وجہ سے سینماؤں میں ویرانی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

اس کی ذمہ دار حکومت ہے اور نہ فلم میکر، اس کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف سینما منتظمین پر عائد ہوتی ہے جن کی غلط پالیسیوں نے اس شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھا دیئے ہیں۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، سنیما مالکان، فلم میکرز کے پیسے واپس کریں اور نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں تاکہ کروڑوں روپے خرچ کرنے والا پروڈیوسر دوبارہ بھی سرمایہ کاری کیلئے میدان میں رہے۔ اگر اس پر غور نہ کیا گیا تو پھر حالات ایسے ہی رہیں گے بلکہ اس سے بھی بڑے ہوجائیں گے۔

دوسری جانب فلم اور سینما سے وابستہ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستانی فلم اور سینما انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگریہ بات درست ہے کہ اگر ماضی میں سینما مالکان پاکستانی فلم کو بہتر رسپانس دیتے بلکہ خود بھی فلمسازی کرتے تو جو صورتحال اس وقت ہے ایسی کبھی نہ ہوتی۔ مگر ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ فلم اور سینما کے شعبوں کی معروف شخصیات کو ایک ہوکر سوچنا ہوگا، ایک دوسرے کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی، جن سے پاکستانی فلم اور سینما کو ترقی ملے۔

بلاشبہ اس شعبے کے ذریعے لوگوں کو تفریح کے بہترین مواقع میسر آتے ہیں۔ لیکن آپسی اختلاف کی وجہ سے یہ مسائل جوں کے توں ہیں, اس کو دور کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، بس اتنا سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہمارا ہی فائدہ ہوگا۔ ہماری اپنی انڈسٹری مضبوط ہوگی تو ہمیں کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور اگر انہوں نے اپنے اختلافات کو بڑھایا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہے تو جہاں فلم میکرز کو نقصان ہوگا ، وہیں سینما گھر بھی بند ہونے لگیں گے۔ پہلے ہی ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور آئندہ اس تعداد میں ان گنت اضافہ ہوجائے گا۔ جس کی وجہ پاکستان اور یہاں بسنے والے لوگوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں