
آج سے بالکل ٹھیک ایک سال پہلے اِسی تاریخ کو میں نے ایک مختصر سی تحریر "غلامی مبارک یا نیا سال مبارک” کے نام پر پوسٹ کیا تھا۔ چونکہ اُس وقت تخلیقی علم میں کمی تھی اور تخلیقی کام پر دسترست بھی اتنی نہیں تھی جتنی الحمد للہ اپنی اساتذہ کی محنت اور والدین و بزرگوں کی دعاؤں سے آج ہے (اب بھی کوئی علامہ نہیں بنے ہم لیکن تھوڑی بہت بہتری آئی ہوئی ہے اللہ کا شکر)۔ اسی مضمون میں، میں نے نئے عیسائی سال کے حوالے سے کچھ جذباتی نُکات بیان کئے تھے لیکن بہت حد تک ٹھیک ہی تھے۔ مضمون کچھ یوں تھا:
"غلامی مُبارک یا نیا سال مُبارک ………؟؟؟”
قربان جاؤں اقبال پر جس نے آج سے اسّی نوّے سال پہلےمسلمانوں کو آگاہ کیا تھا کہ مغرب کےغلام نہ بنیں لیکن ہم نے اپنی مانی اور غلامی کو قبول کرہی لیا۔ اسی غلامی کا ایک پہلو یہ گریگورئین کیلنڈربھی ہے جس کو ہم دوسرے الفاظ میں عیسائی کیلنڈر بھی کہتے ہیں جس کا تفویضِ اختیار پوپ گری گوری چہارم کو حاصل ہے۔ کوئی تاریخ اگر دیکھنا چاہتا ہو تو گوگل پر موجود ہے ، اِدھر میرا مطلب صرف اپنی غلامی کا اظہار ہے۔۔۔ مسلمان ہیں لیکن صرف برائے نام ۔ آج میرے ملک کےہرسکول،کالج،یونیورسٹی اور یہاں تک کہ بعض دینی مدرسوں میں بھی اس عیسائی کیلنڈر کو استعمال کیا جاتا ہے جو ایک غلام قوم کی ایک عام اور ایک بڑی نشانی ہے ــ لیکن آج بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے اور”ہیپی نیو اِئیر” تک آچکی ہے بلکہ اس سے بھی آگے اگر کہوں تو "نیو اِئیر پارٹی” تک ،جو اہلِ علم خوب سمجھتے ہیں ۔….کیا ہم نے کبھی اتنی شدّت سے اپنے ہجری کیلنڈرکاانتظار اور خوش آمدید کیا ہے جتنا ہم اپنے پوسٹ اور ٹویٹ میں عیسائی کیلنڈرکا کرتے ہیں ۔ اوپر سے ساتھ میں یہ بھی بولتے ہیں کہ اللہ خیریت سے گزارے ۔ اسی غلامی نے ہم سے ہمارا دین بُھلا دیا ، ہم سے ہمارے رسول اور آقا ﷺ کا سنت بُھلا دیا ۔۔یہاں تک کہ ہم اپنا تہذیب اور ثقافت بھی بھول گئے۔
یہود اور عیسائی کبھی بھی مسلمان کے دوست نہیں بن سکتے ، وہ ہمارے ساتھ جو بھی بھلائی کریں گے صرف اور صرف اپنے مفادات کیلئے۔اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ میری بہن کا حجاب اور بُرقعہ مغرب کیلئے کسی ضربِ شدید سے کم نہیں لھٰذا یہ ایک عاجزانہ التجا ہے کہ اپنی مذہب اور اپنی تہذیب سے باخبر رہیں ، یہ مغرب جن کو ہم ترقی یافتہ کہہ رہے ہیں صرف ایک ظلمت ہے ۔۔۔ماں بہن تو دُور جس قوم نے اللہ کی پہچان نہیں کی وہ اور کتنا ترقی کرے گا!
بقولِ اقباؔلؒ:
ترا وجود سراپا تجلئ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرِخاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو، زرنگاروبے شمشیر
آج اِسی مضمون میں اضافہ کرتا چلوں کہ جو یہ نیا سال ہے عیسوی، تقریباً سب کے علم میں ہے کہ یہ عیسائیوں کاایجاد کردہ تو ہے ہی لیکن بہت کم حضرات کو یہ علم ہوگا کہ مغرب کے تعلیم یافتہ جہلاء (جہلاء جمع ہے جاہل کی) اس New Year Eveکو کس انداز سے مناتے ہیں اور کیا کچھ کرتے ہیں۔ بہر حال ، اُس تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا بس اپنے معاشرے سے کچھ سنی سنائی باتوں کو مد نظر رکھنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ "ہم غلام ہیں”۔ یہ بات ہر موجودہ پاکستانی عاقل بالغ کو ماننی پڑے گی۔ اپنے مغربی آقاؤں کے حکم کے بغیر تو ہم پیسہ روپیہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اور لگائیں گے کیسے، وہ تو دیا ہی اُنھی نے ہے۔ خیر ، میں وہ نہیں کہونگا کہ ہماری ریاستی کرسیاں بھی وہ چلاتے ہیں، تضاد بن جائے گی۔ پَر ہمیں ہر صورتِ حال میں اپنی غلامی ماننی ہوگی۔ لیکن آپ فکر مند اس لئے نا ہوں کیونکہ قومیں غلامی ہی کے بعد بادشاہت کرتی ہیں اور وہ کوئی مقولہ بھی مشہور ہے نا کہ "غلامی کے بغیر بادشاہی ناممکن ہے”۔ انشا للہ بہتری کی امید ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی عیسوی کیلنڈر کو ماننے سے کوئی قوم
تھوڑی غلام بن جاتا ہے۔ ہاں جناب ! آپ کی
بات بالکل درست ہے کیونکہ ہم غلام ہیں ہی
اسی لئے تو اس کیلنڈر کو فالو کررہے ہیں نہ کہ ہم یہ کیلنڈر فالو کرکے غلام بن گئے
ہیں۔ہمارا صرف دین الگ نہیں، ہماری صرف
کتاب اور دینی رسومات الگ نہیں بلکہ ہماری پوری زندگی باقی دین کے ماننے والوں سے الگ ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو اور ہر لمحے کی رہنمائی موجود ہے اور بالکل
اسی طرح ہمارے لئے کیلنڈر بھی الگ ہے۔عیسائیوں کے پاس اگر Gregorian Calendar ہے تو مسلمانوں کے پاس
ہجری کیلنڈر موجود ہے ۔وہی سال کے بارہ
مہینے اور مہینے کے انتیس تیس دن لیکن صورتِ حال یہ کہ "الحمد للہ ہم مسلمان
ہیں”، (اپنی زندگی میں ضرور ایک مرتبہ کسی نہ کسی سے سنا ہوگا)، اور ہماری
زندگی کے صبح و شام گزرتے ہیں جنوری اور دسمبر کو فالو کرتے ہوئے۔اور کچھ حضرات
تو یہ سمجھنے کے (کہ ہماری ریاست کن حالات
میں ہے، کب سے ہے ، کب تک رہے گی اور معلوم نہیں غلامی کی ان زنجیروں سے ہم کو کب
آزادی ملے گی) باوجود بھی کہتے ہیں کہ یار
یہ تو ریاست کا کام ہے ہجری کیلنڈر کو فالو کرنا ۔ وہ ہجری عام کردیں ، ہم خود
بخود وہی استعمال کیا کریں گے۔تو جنابِ عالی! غلامی کے حالات ذہن میں رکھتے ہوئے
آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر ریاست ہجری کیلنڈر استعمال کرنا شروع کردے تو
پھر جو قرضے ورضے اور پیسے ویسے ہمیں مِل رہے ہیں، اُن کا کیا ہوگا کیونکہ اُس
دنیا کا سارا نظام تو اس Gregorian
Calendar سے چل رہا ہے اور یہاں تک کہ ہم ہفتے کی عام
تعطیل بھی جمعۃ المبارکہ کو نہیں رکھ سکتے کیونکہ سسٹم سارا اوپر سے نیچے
ہوجائیگا، اور جو غلامی سے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے وہ بھی ان چیزوں سے متاثر
ہوسکتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ہر کام اور ہر کلام ریاست پر نہیں چھوڑنا
چاہئے، خود بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا ہے کیونکہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا یہی قانون ہے
کہ "بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں
بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو نہ بدلیں”۔اسی لئے اگر ہم فرداً فرداً کچھ کریں گے
نہیں اور ہر کام ریاست پے چھوڑیں گے تو پھر ہمارا اللہ ہی نگہباں!
انہی غلامی کی زنجیروں کو ہم نے کاٹنا ہے۔ہم، نوجوانوں نے۔اگر کچھ نہیں کرسکتے تو اپنے قلم کو استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں بندوق سے بھی زیادہ طاقت قلم کی ہے۔اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے دل میں تو نفرت کرسکتے ہیں اِن غیر اسلامی رسومات سے۔نوجوان ہی ایک قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔ایک قوم نے اگر مستقبل میں دنیا پر حکمرانی کرنی ہے تو اُنھوں نے مستقبل کے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی بھی پیدا کرنے ہیں اور یہی ہیروز تب پیدا ہونگے جب ہم اپنے آپ کو خود مختار بنائیں اور ہم خود مختار تب بنیں گے جب ہماری سوچ خود مختاری کی ہو۔جب تک ہم اپنے کالج، یونیورسٹی کے کتابوں سے باہر نہیں نکلیں گے اور دنیا کو دیکھ کر صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کریں گے تب تک ہم ذہنی طور پر غلام ہونگے اور سب سے بدترین غلامی ذہنی اور فکری غلامی ہے۔کیونکہ مغرب کے پیدا کردہ کتابیں ہمیں وہی سکھائیں گی جو وہ دکھانا چاہتے ہیں اور جس کا آخری نتیجہ مغرب کو ایک ہیرو کی طرح ماننے کی مجبوری ہی ہوتی ہے اور بالآخر ہم ذہنی ، نفسیاتی اور فکری غلام بن جاتے ہیں۔۔۔۔!
بقول اقباؔلؒ:
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا
مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے
یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ
مانگے