ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب کا مکمل متن

جنابِ صدر!
میں آپ کو اقوامِ متحدہ کے چھہترویں اجلاس کیلئے منصبِ صدارت سنبھالنے پر مبارک باد دیتا ہوں۔
میں آپ کے پیشرو والکن باسکر کو بھی ان کی کامیابیوں پر خراجِ تحسین پیش کروں گا۔
جنہوں نے مہارت ساتھ کووڈ انیس کی عالمی وباکی وجہ سے درپیش مشکل حالات کے دوران راہنمائی فراہم کی۔

جنابِ صدر!
دنیا کو کووڈ انیس کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرےکی وجہ سے درپیش خطرات
جیسےتین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے۔
وائرس اقوام اور لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا۔
نہ ہی غیر یقینی موسمیاتی رویوں کی وجہ سے آنے والی تباہیاں یہ تفریق کرتی ہیں۔
ہمیں درپیش مشترکہ خطرات نہ صرف بین الاقوامی نظام کی نزاکتوں کو آشکار کررہے ہیں بلکہ
وہ انسانیت کے اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔
اللہ کے فضل و کرم سے اب تک پاکستان کووڈ کی وبا کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
باہمی تعاون کی ہماری منصوبہ بندی جس کا محور سمارٹ لاک ڈاؤن تھے کی بدولت
ہمیں انسانی زندگیوں اور معاش کو چلائے رکھنے میں مدد ملی اور ہماری معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا
ہمارے سماجی تحفظ کے پروگرام ’احساس‘ کی بدولت ڈیڑھ کروڑخاندان
کورونا بندشوں کی سختیوں سے عہدہ برآہونے میں کامیاب رہے۔
جنابِ صدر! موسمیاتی تبدیلی ہماری بقا کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے
جن کا ہمارے سیارے کو سامنا ہےمضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے
اس کے باوجود ہم ان دس ممالک میں سے ایک ہیں
جو دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں
اپنی عالمی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہوئے
ہم نےاس بابت ایک انقلابی ماحولیاتی پروگراموں کا آغاز کیا ہے
دس ارب درخت لگانے کی سونامی مہم کے توسط سے پاکستان میں نئے سرے سے جنگلات اگا رہے ہیں
قدرتی آماجگاہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں،قابلِ تجدید توانائی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اپنے شہروں سے آلودگی
کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کر رہے ہیں۔

کووڈ کی عالمی وبا کے سبب معاشی بدحالی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے تین طرفہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے
ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔جس میں پہلے نمبر پر ویکسین کی یکساں دستیابی یعنی ہر جگہ
ہر شخص کوکووڈ کے خلاف ویکسین لگنی چاہیے اور جتنا جلدی ممکن ہو لگنی چاہیے۔
دوسرا، ترقی پذیر ملکوں کو مناسب فنانسنگ کی سہولت لازماً ملنی چاہیے۔ جسےقرضوں کی جامع ترتیبِ نو،
او ڈی اے کا حجم بڑھانے اورغیر استعمال شدہ ایس ڈی آر کی دوبارہ تقسیم اور ایس ڈی آرز کا بڑا حصہ ترقی
پذیر ملکوں کو الاٹ کرکے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے فنانسنگ کی سہولت فراہم کر
کے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ہمیں سرمایہ کاری کی واضح منصوبہ بندیوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ جو غربت کے خاتمے، روزگار پیدا کرنے، پائیدار
انفراسٹرکچر کی تعمیر، ڈجیٹل تقسیم کاخلا کم کرنےمیں مدد گار ہوں۔ میں تجویز دوں گا کہ سیکرٹری جنرل دو
ہزار پچیس میں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کیلئے سربراہ اجلاس بلائیں۔
جس میں پائیدار ترقی کے اہداف کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور ان پر عملدرآمدکیلئےکام کی رفتار تیز کی جائے۔

جنابِ صدر!
ترقی پذیر ممالک کی بدعنوان حاکم اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق
خطرناک رفتارسے بڑھ رہا ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے دنیا کی توجہ دولت کی ترقی پذیر ملکوں سے ناجائز
اڑان کی جانب مبذول کرواتا آیا ہوں۔
سیکرٹری جنرل کے اعلیٰ سطح پینل برائے مالیاتی احتساب،شفافیت اورمکمل دیانتداری جسے فیکٹ آئی
کہا جاتا ہے اس نے حساب لگایا ہے کہ سات ہزار ارب ڈالر کے خطیر چوری شدہ اثاثے محفوظ مالیاتی پناہ
گاہوں میں چھپائےگئے ہیں۔
اس منظم چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ملکوں پر دور رس منفی اثرات پڑے ہیں۔
اس عمل سے ان کو دستیاب معمولی وسائل کی حالت مزید پتلی ہوتی جاتی ہے۔ غربت کی سطح میں
تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ۔
بطورِ خاص جب منی لانڈرنگ کے ذریعے مال ملک سے باہر لے جایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں
کی کرنسی پر دباؤ پڑتا ہے اوراس کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ موجودہ رفتار سے جب کہ فیکٹ آئی پینل
نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے نکال لئے جاتے ہیں۔
نتیجتاً تلاش معاش کیلئے امیر ملکوں کی جانب ہجرت کرنے والوں کا ایک بہت بڑاسیلاب آئےگا
جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھارت کے ساتھ کیا۔ وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ان کی بدعنوان
اشرافیہ کر رہی ہے۔ وہ دولت لوٹ رہے ہیں اور اسے امیرملکوں کے دارلحکومتوں اور ٹیکس جنتوں میں
منتقل کر رہے ہیں۔

جنابِ صدر!
ترقی یافتہ ملکوں سے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی غریب قوموں کیلئےناممکن ہے۔ امیر ملکوں کے لیے نہ
کوئی کشش ہے اور نہ ہی کوئی مجبوری کہ وہ یہ غیر قانونی طور پر کمائی ہوئی دولت واپس لوٹائیں۔
یاد رہے کہ غیر قانونی طور پر حاصل شدہ یہ دولت ترقی پذیر ملکوں کے عام عوام کی ملکیت ہے۔
میں دیکھ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں ایک وقت آئے گا جب امیر ملکوں کو ان غریب ملکوں سے
معاش کے لیے بری تعداد میں ہجرت کرنے والوں کو روکنے کیلئے دیواریں تعمیر کرنا پڑ جائیں گی۔
مجھے خوف ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزیرے ویسے ہی ایک عالمی آفت کی شکل اختیار کر
لیں گے جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی نے کی ہے۔
جنرل اسمبلی کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پریشانی اور اخلاقی تضادات کا باعث بننے والی اس
صورتِ حال سے عہدہ برآ ہوا جاسکے۔
غیر قانونی دولت کیلئے موجود ان جنتوں کا نام لے کر انہیں شرمندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک جامع قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے دولت کی غیر قانونی اڑان کو روکا اور اس دولت
کو واپس لوٹایا جائے۔اس انتہائی بڑی معاشی نا انصافی کے خاتمے کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔
کم سے کم سیکرٹری جنرل کے فیکٹ آئی پینل کی سفارشات پر پوری طرح عمل کیا جانا چاہیے۔

جنابِ صدر!
اسلامو فوبیا ایک اور ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا ہم سب کو ملکر مقابلہ کرنا ہے۔ نائن الیون کے دہشت
گردی کے حملے کے بعد سے کچھ حلقوں کی جانب سےدہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے۔
اس سے دائیں بازو کےخوفناک اور پرتشدد قومیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہوا جس کے سبب انتہا پسند
اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔
جنزل اسمبلی کی عالمی دہشت گردی کے خلاف پیش بندی نے ان اُبھرتے خطرات کو تسلیم کیا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ ان اسلام مخالف رجحانات اور دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی
جانب سے لاحق کردہ دہشت گردی کے نئے خطرات کا احاطہ کرے گی۔
میں سیکرٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کےلئے بین الاقوامی مکالمہ شروع کروائیں
ساتھ ہی ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے متوازی کوششیں جاری رکھنی چاہیں۔

جنابِ صدر!
اس وقت اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔
فاشسٹ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کی جانب سے پھیلائے گئےنفرت سے بھرے ہندوتوا نظریات
نے بھارت میں بسنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کےخلاف خوف اور تشدد کی ایک لہرجاری کر رکھی ہے۔
گاؤ ماتا کے جیالوں نے جتھوں کی صورت میں مسلماںوں کو قتل کرناجاری رکھا ہوا ہے۔
وقفے وقفے سے منظم قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ نئی دہلی میں گزشتہ برس ہوا شہریت کے امتیازی
قوانین جن کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔
بھارت بھر میں مساجد کو شہید کرنے کی مہم اور اس کی اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔
نئی دہلی کی جانب سے ایک ایسے راستے پر چڑھنا جسے وہ بد قسمتی سے جموں کشمیر کے قضیے کاحتمی حل
قرار دیتا ہے۔
بھارت نے پانچ اگست دو ہزار انیس سےمسلسل یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ اس نے نو
لاکھ قابض فوج کے ذریعےخوف کی ایک لہرجاری کر رکھی ہے۔
میڈیا اور انٹر نیٹ پر پابندی لگا رکھی ہے پُرامن مظاہروں کو پر تشدد کارروائیوں سے دبارکھا ہے۔
تیرہ ہزارہ کشمیریوں کو اغوا کررکھا ہے جن میں سے سیکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس نے جعلی
پولیس مقابلوں میں سیکڑوں کشمیریوں کو قتل کر رکھا ہے۔
اس نے اجتماعی سزائیں دینے کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ جس میں پورے پورے گاؤں اور مضافاتی علاقے تباہ
کر دئیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے ایک تفصیلی ڈوزئیز جاری کیا ہے جس میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانے سے غیر قانونی
قبضے میں رکھے گئے جموں و کشمیر میں ہوئی منظم اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں
کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس جبر کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
کوشش کی جارہی ہے کہ اسے مسلم اکثریتی علاقے سے مسلم اقلیتی علاقے میں بدل دیا جائے۔
بھارتی کارروائیاں اقوامِ متحدہ کی جموں و کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی
ہیں۔ قراردادوں میں صاف وضاحت موجود ہے کہ اس قضیے کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کروائے
گئے ایک شفاف اور آزادانہ استصوابِ رائے میں خطے کے عوام کو کرنا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی کارروائیاں بین الاقوانی قوانین برائے انسانی حقوق اور انسان دوست قوانین
کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ بشمول چوتھے جنیوا کنونشن کے اور جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔
یہ بدقسمتی ہے کہ دنیا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رویہ مساویانہ نہیں ہے۔
اور اکثر بڑی طاقتوں کو علاقائی، سیاسی معاملات اور کاروباری مفادات مجبور کردیتے ہیں۔
کہ وہ اپنے دوست ممالک کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں۔
ایسے دوہرے معیارات اور بھارت کی صورت میں سب سے نمایاں یہ کہ جہاں آر ایس ایس ،بی جے پی کی
حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔
بھارتی بربریت کی تازہ ترین مثال عظیم کشمیر رہنما سید علی شاہ گیلانی کی میت کو ان کے خاندان سے
زبردستی چھین لینا ہے۔ انہیں ان کی خواہش کے مطابق اسلامی طریقہ کار کے مطابق تدفین کے حق سے
محروم رکھا گیا۔
یہ کارروائی جس کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہ تھا بنیادی انسانی حقوق کی شائستگی کے خلاف تھا۔
میں اس جنرل اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ سید علی شاہ گیلانی کی باقیات کی باقاعدہ اسلامی روایات کے
مطابق شہداء کے قبرستان میں تدفین کا مطالبہ کرے۔

جناب صدر!
پاکستان اپنے دیگر ہمسائیوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن کا خواہش مند ہے لیکن جنوبی ایشیاء میں پائیدار
امن کا دارومدار جموں و کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردوں اور جموں و کشمیر
کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونے میں ہے۔

گذشتہ فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پرجنگ بندی کے 2003 کے معاہدے کا اعادہ کیا۔ امید یہ تھی کہ اس سے
دہلی میں حکمت عملی پر دوبارہ غوروخوض ہوگا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ وہ اس بربریت سے
ماحول کو بگاڑنے کی کوشش میں ہے۔
اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے اور
اس کے لیے بھارت کو لازماً یہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نمبر ایک، 5 اگست 2019 سے کیے گئے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو منسوخ کرے۔
نمبر دو،کشمیر کے عوام کے خلاف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے۔
نمبر تین، مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں کی جانے والی تبدیلیوں کو روکے اور منسوخ کرے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکا جائے۔
بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں
کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان موجود ڈیٹیرنسس کو بے معنی کر سکتا ہے۔

جناب صدر!
اب میں افغانستان کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
کسی وجہ سے افغانستان کی موجودہ صورت حال یعنی وہاں ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے امریکہ اور یورپ
میں بعض سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔
اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان
اٹھایا ہے۔ وہ پاکستان ہے جب ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہوئے تھے۔
80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے
گھر ہوئے اور یہ کیوں ہوا؟
اسی کی دہائی میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں تھا۔
پاکستان اور امریکہ نے افغانستان کی آزادی کے لیے مجاہدین کو تربیت دی۔
دنیا بھر سے مجاہدین گروپوں، اٖفغان مجاہدین اور القائدہ کو ہیرو سمجھا جاتا تھا۔
صدر رونلڈ ریگن نے 1983 میں ان کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی۔
ایک نیوز رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ کیا۔ 1989 میں سوویت یونین
افغانستان سے چلا گیا اور اسی طرح امریکی بھی افغانستان کو چھوڑ کر گئے۔
پاکستان کو 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا۔
ہمارے ہاں مذہبی فرقہ پرستی پھیلانے والے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا۔

بدترین صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک سال بعد امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں۔
آگے بڑھتے ہیں، ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی کیونکہ اب امریکہ کی زیر قیادت اتحاد
اٖفغانستان پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے لوجسٹیکل سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔
اس کے بعد کیا ہوا؟
وہی مجاہدین جن کو ہم نے غیر مللکی قبضے کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا تھا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف
جنگ ایک مقدس فریضہ ہے، ایک مقدس جنگ اور جہاد وہ ہمارے مخالف ہوگئے۔ ہمیں شریک کار گردانا گیا
انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔
پھر افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قبائلی علاقے میں جو پاکستان کا جزوی طور پر خود مختار علاقہ ہے
اور جہاں ہماری آزادی کے وقت سے کوئی فوج تعینات نہیں کی گئی تھی۔
ان کی افغان طالبان کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی تھی اس لیے نہیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک ہے بلکہ پشتون
قومیت کی وجہ سے جو کہ بہت مضبوط تعلق ہے۔
پھر 30 لاکھ افغان پناہ گزین اب بھی پاکستان میں تھے وہ سب پشتون ہیں جو کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
5 لاکھ پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ اور ایک لاکھ افراد پر مشتمل کیمپس ان سب کی افغان طالبان کے
ساتھ ہمدردی تھی، کیا ہوا؟
وہ بھی پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ پہلی بار پاکستان میں عسکریت پسند طالبان سامنے آئے
انہوں نے بھی پاکستانی حکومت پر حملے کیے۔
ہماری تاریخ میں جب پہلی بار ہماری فوج قبائلی علاقوں میں گئی جب بھی فوج شہری علاقوں میں جاتی
ہے تو اس کے نتیجے میں اور بلا تخصیص نقصان ہوتا ہے۔
اس سے بلا تخصیص نقصان ہوا جس کے نتیجے میں بدلہ لینے کیلئے عسکریت پسندوں کی تعداد دوگنی اور تگنی ہوگئی۔
صرف یہی نہیں دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ نے پاکستان میں 480 ڈرون حملے کیے
ہم سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے اپنے ہدف کو درست نشانہ نہیں لگا سکتے۔
وہ ان عسکریت پسندوں کے مقابلے میں جن کو وہ نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں زیادہ نقصان کرتے ہیں۔
جن لوگوں کے پیارے مارے گئے انہوں نے پاکستان سے بدلہ لیا۔
2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے۔
ایک وقت تھا جب میرے جیسے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہم اس صورت حال کا کامیابی سے مقابلہ کر لیں گے۔
پاکستان میں ہر طرف بم دھماکے ہو رہے تھے۔ ہمارا دارالحکومت ایک قلعے کی مانند دکھائی دیتا تھا۔
اگر ہماری فوج نہ ہوتی جو کہ دنیا کہ انتہائی منظم افواج میں سے ایک ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی بھی
دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان نیچے چلا جاتا۔ جب ہم اس طرح کی باتیں سنتے ہیں جب امریکہ میں انٹرپریٹرز وغیرہ
اور ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اس کی مدد کی پریشانی ظاہر کی جاتی ہے تو ہمارے بارے میں کیا خیال ہے۔
ہم نے جو اس قدر مشکلات کا سامنا کیا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے ہم افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکی
اتحاد کے ساتھ تھے۔ جہاں افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے جارہے تھے۔

ہمارے لیے کم از کم تعریف کا ایک لفظ ہی کہا جاتا لیکن سراہنے کی بجائے تصور کریں ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے
جب ہم پر افغانستان کے واقعات کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے۔
2006 کے بعد یہ بات ہر اس کے لیے واضح تھی جو افغانستان کو سمجھتا ہے جو افغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہے کہ
افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہوگا۔
میں امریکہ گیاتھنک ٹینکس کے ساتھ بات کی میں نے اس وقت سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور سینیٹر جان ریڈ
سے ملاقات کی۔ میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی حل
ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
اس وقت کسی نے یہ بات نہ سمجھی اور بد قسمتی سے فوجی حل تلاش کرنے میں امریکہ نے غلطی کی
اگر آج دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آ گئے ہیں۔
تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیوں تین لاکھ نفوس پر مشتمل سازو سامان سے لیس افغان
فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔
یاد رکھیں کہ افغان قوم دنیا کی بہادر ترین قوموں میں سے ایک ہے اور اس نے مقابلہ نہیں کیا۔ جس لمحے اس کا
تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان
کی وجہ سے نہیں ہے۔

جناب صدر!
اس وقت ساری عالمی برادری کو یہ سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں اگر
اس وقت ہم اٖفغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو افغانستان کے آدھے عوام جن کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا
ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اگلے سال تک افغانستان کے نوے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے
جائیں گے۔
ہمیں آگے ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے سنگین اثرات افغانستان کے ہمسائیوں کے لیے ہی
نہیں بلکہ ہر جگہ ہوں گے اگر غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی
دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں کیوں آیا تھا؟
اس لیے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم
کریں ۔ طالبان نے کیا وعدہ کیا تھا، وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، وہ ایک مخلوط حکومت بنائیں گے
وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے اور انہوں نے معافی کا اعلان کیا ہے۔
اگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرے تو یہ سب کے لیے کامیابی
ہو گی کیونکہ یہ وہ چار چیزیں تھیں جب دوحہ میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے اور بات
چیت کا محور یہی باتیں تھیں۔
اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکہ اتحاد کی افغانستان میں 20 سال
کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی
کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔

جناب صدر !
میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے سب پر زور دوں گا کہ یہ افغانستان کے لیے نازک وقت ہے۔ آپ وقت ضائع نہیں
کر سکتے، وہاں امداد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو اس مقصد کیلئے متحرک کریں، شکریہ۔

No associated posts.

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں