اکتوبر 22 کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے ترکی کو گرے لسٹ میں ڈالنے ک فیصلہ بہت سارے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ لیکن وہ لوگ جو جغرافیائی و سیاسی پیش رفتوں سے آگاہ ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ترکی کو لازما فٹیف نے گرے لسٹ میں ڈالنا تھا۔ لامحالہ ہونے والا کام ہوچکا ہے اور ترکی کو فٹیف کی گرے لسٹ میں شمولیت کی تیاری کر لینی چاہیے ۔ ترکی کے پالیسی سازوں کو فٹیف کے محرکات کو سمجھ کر اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ فٹیف ایک بین الاقوامی ادارہ جس کا کام مالی معاملات کی نگرانی کرنا ہے اس وقت بین الاقوامی قوتوں کے ہاتھ ایک ہتھیار بن چکا ہے جس کا مقصد سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ٖفٹیف کی کریڈیبلٹی پر بہت سارے سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ 1989ء میں تقریباً 32 سال قبل جی 7 ملکوں نے فرانس میں منعقدہ اجلاس میں کیا تھا، بعد ازاں جی سیون اتحاد کے ممبران کی تعداد 16 ہوئی جو اب بڑھ کر 39 ہوچکی ہے، ایف اے ٹی ایف میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظمیں شامل ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیا پیسیفک گروپ کا حصہ ہے، اس تنظیم کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ملکوں تک ہے۔ ایف اے ٹی ایف ایک ٹاسک فورس ہے جو حکومتوں نے باہمی اشتراک سے تشکیل دی ہے۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کیخلاف مشترکہ اقدامات تھا، امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی دہشتگردی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی بھی روک تھام کیلئے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر 2001ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔
ایف اے ٹی ایف نے اپنے قیام کے پہلے 2 برسوں میں تیزی سے کام کیا اور 1990ء تک تجاویز کا پہلا مسودہ تیار کیا۔ بعدازاں 1996ء، 2001ء، 2003ء اور 2012ء میں یہ اپنی دیگر تجاویز بھی پیش کرچکی ہے۔ ان تجاویز کا مقصد دہشت گردی اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو فٹیف کے دائرہ کار میں لانا تھا۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی کمیونٹی کا دہشت گردی سے لڑنے کے لیے یہ عظیم مقصد بعض ممالک کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مثال کے طور فٹیف ایران، پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہورہا ہے جبکہ فٹیف نے منی لانڈرنگ کی محفوظ پناہ گاہوں بی وی آئی، کیمن آئی لینڈ اور بھارت جیسے ممالک کی جانب سے اپنی آنکھین مکمل طور پر بند کر رکھی ہے۔
پاکستان کا فٹیف کے ساتھ تجربہ اس کی واضح مثال ہے۔ امریکہ اور بھارت کی پشت پناہی سے فٹیف اور اس کے ذیلی ادارے اے پی جی کے مشترکہ نشانے پر ہے اور اسے تن تنہا ثابت کرنا ہے کہ اس کے ہاتھ ہر طرح کے معاملات میں صاف ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کو نہ صرف دہشت گردوں کی فنڈنگ سے متعلق قانون سازی کرنی ہے بلکہ ان کی تحقیقات کر کے انہیں سزا بھی دینی ہے اور پھر اس بات کے ثبوت فٹیف کو دینے ہیں۔ جیسا کہ فٹیف منصف بھی ہے، جیوری بھی اور سزا دینے والا ادارہ بھی اس لیے پاکستان ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ہرگز فٹیف سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ حالیہ مہینوں میں ، پاکستان نے امریکہ کو افغانستان پر نگاہ رکھنے کے لیے اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ذمہ بھی پاکستان پر ڈالا جاتا ہے اور مزید بھارت اور امریکہ اس وقت چین کے خلاف برسرپیکار ہیں اور چین پاکستان کا قریبی حلیف ہے۔
پاکستان کے خلاف یہ سارا کھیل نرم ہاتھوں سے کھیلا جارہا ہےاور ہر مرتبہ پاکستان جب فٹیف کے ریویو کے لیے کام مکمل کر کے جاتا ہے پاکستان کو ایک نئے ٹاسک کی لسٹ تھما دی جاتی ہے۔ اس سارے کھیل کا مقصد پاکستان کے زہر کے دانت نکالنا ہے اور اس سے اپنے مطالبات منوانے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت فٹیف کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
ترکی کے لیے جال
حال ہی میں ترکی کو بھی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے ۔ ترکی اپنے تذویراتی مفادات کی وجہ سے ایک آزادانہ پالیسی رکھتا ہے۔ اس لیے ترکی کو یہ قیمت ادا کرنا ہی تھا۔ حال ہی میں ترکی نے جرمنی اور امریکا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ ان سفیروں نے پیر کے روز ایک انتہائی غیر معمولی مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیرس میں پیدا ہونے والے 64 سالہ سماجی کارکن عثمان کوالا کی مسلسل حراست نے ترکی کے لیے صورت حال مزید خراب کردی ہے جس کے بعد امریکی صدر نے یہ حکم صادر کیا۔ ترکی کی مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور رواں ہفتہ ان کے انتہائی مایوس کن ثابت ہوا ہے جہاں اس سے قبل انہیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور ان کی کرنسی ’لیرا‘ کی قدر کم ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
ترکی اور امریکہ کے تعلقات خراب ہوگئے ہیں۔ ترکی اس وقت یورپین یونین میں بھی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ترکی نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اور ترکی کا دس ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان اسی کا حصہ ہے۔ جس طرح پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر سیاست کا نشانہ بنایا جارہاہے ویسے ہی ترکی کو بھی دباؤ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مغربی ممالک کی ڈکٹیشین کو قبول کرے۔اگر ترکی پاکستان کی صورتحال کو مدنظر رکھے تو اسے وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہیں جو پاکستان نے دہرائی ہیں۔ یعنی ایک تو پاکستان نے قانونی سازی میں تاخیر کی اور دوسرا اس نے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے شروع میں ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ جس کے نتیجے میں فٹیف کو پاکستان کے خلاف کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔
دوسرا پاکستان فٹیف کے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے ایک اتھارٹی کے قیام میں ناکام رہا ترکی اس حوالے سے ماسک نامی ادارے کو یہ ذمہ داری سونپ سکتا ہے کہ وہ فٹیف کی قانون سازی پر توجہ دے۔ چونکہ کسی بھی ملک کو فٹیف کی لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ اس کے ممبر ممالک کرتے ہیں اور پر باقاعدہ ووٹنگ ہوگی ہے اس لیے ترکی کی وزارت خارجہ کو سفارتی سطح پر بھی اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ترکی کو ممبر ممالک سے بات کرنی چاہیے اور ان کے خدشات کو ذاتی طور پر دور کرنا چاہیے چونکہ اس کام میں کافی وقت لگنے کا خدشہ ہے اس لیے ترکی کو فوری طور پر یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فٹیف قانون کے پھندے کے طور پر مختلف ممالک کو دبانے کا آلہ ہے مگر پاکستان اور ترکی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس کھیل کے قوانین کے مطابق چلیں گے اور ان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔
منگل، 26 اکتوبر 2021
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
The post فٹیف قانون سازی: پاکستان سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے؟ شفقنا بین الاقوامی appeared first on شفقنا اردو نیوز.