ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کی گرما گرم بحث نے پھر سر اُٹھالیا
دنیا بھر میں اس بات پر بحث دن بہ دن طول پکڑ رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ترقی یقینی بنانے کے لیے انسان کو کس قدر کام کرنا چاہیے۔ مغربی دنیا میں یہ تصور عام ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ آرام کا موقع دیا جانا چاہیے۔ وہاں ہفتے میں چار دن کام کرنے کے تصور پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دوسری طرف کام کے یومیہ اوقات گھٹانے پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ انسان کو سوشل لائف کے لیے زیادہ وقت نہیں مل پارہا۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ ہفتے میں چار یا پانچ دن کام کیا جائے اور دو یا تین دن بھرپور طور پر فراغت دی جائے۔
جاپان سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ آرام کا موقع دینے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ اس حوالے بھرپور برین اسٹارمنگ کی جارہی ہے اور تجربے بھی بہت کیے جارہے ہیں۔
بھارت کے ایک ارب پتی آجر نے تین سال قبل یہ آئیڈیا پیش کیا تھا کہ ہفتے میں کم از کم 70 گھنٹے کام کرنے کا نظام لایا جائے کیونکہ بھارت اور دیگر پس ماندہ معاشروں میں بہتری اُسی وقت آسکتی ہے جب زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے۔ اس تجویز پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عام آدمی کو اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور احباب کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملنا چاہیے۔ ارب پتی آجر کا استدلال یہ تھا کہ زیادہ آرام ترقی یافتہ معاشروں کا چونچلا ہے۔ بھارت جیسے ممالک کو زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے تاکہ عالمی برادری میں اپنے آپ کو منواسکیں۔ آرام اور سکون اُسی وقت اچھا لگتا ہے جب غیر معمولی یا قابلِ رشک ترقی ممکن بنائی جاچکی ہو۔
لارسن اینڈ ٹوبرو کے چیئرمین ایس این سُبرامنین نے تو کہا تھا کہ بھارت جیسے ممالک کو اگر کچھ کر دکھانا ہے تو ہفتے میں 90 دن کام کرنا ہی پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ کام کرکے ہی پس ماندگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت جو معیشتی ڈھانچا ہے اور جس طور کام لیا جارہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مثالی نہیں۔ بھارت میں لوگ کام کم کرتے ہیں اور وقت زیادہ ضایع کرتے ہیں۔ لوگ سوتے بھی زیادہ ہیں اور دوستوں میں وقت بھی بہت زیادہ گزارتے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی معروف روحانی شخصیت گور گوپال داس نے بزنس ٹوڈے مائنڈ رش 2025 میں اپنے سیشن کے دوران کہا کہ اگر کسی انسان کو اپنے لیے بھرپور اور مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانی ہے تو جس قدر بھی چاہے کام کرے، ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ اگر کوئی یومیہ 15 گھنٹے یا 18 گھنٹے کام کرنا چاہتا ہے تو یہ اُس کی مرضی کا سَودا ہے۔ کچھ لوگ زیادہ کام کرنے کے شوقین اور عادی ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے اُن کے حالات درست ہوجائیں گے۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو اُن کی مرضی اور اگر وہ ایسا کرنے سے بھرپور کامیابی پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ کتنا کام کرنا چاہیے یہ ہر انسان کا اپنا معاملہ ہے اور اُسی کو طے کرنا ہے۔