امریکہ

ٹرمپ ریاست نیواڈا سے بھی کامیاب، نو منتخب صدر الیکشن کس طرح جیتے؟

ویب ڈیسک امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریاست نیواڈا سے بھی کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد ان کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 301 ہو گئی ہے۔

امریکہ کی 50 میں سے 49 ریاستوں کے نتائج آ چکے ہیں جب کہ ایک ریاست ایریزونا کا نتیجہ ابھی آنا باقی ہے۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے ہفتے کو ریاست نیواڈا کے الیکشن کا نتیجہ کال کیا گیا جس کے مطابق نیواڈا کے تمام چھ الیکٹورل ووٹ ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو مل گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی ڈورا میکوار کی رپورٹ کے مطابق پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کاملا ہیرس کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ لیکن ٹرمپ نے کئی مختلف کمیونیٹیز اور مقابلے کے لیے اہم سمجھی جانے والی ریاستوں میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کے ووٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ الیکٹورل ووٹس کے ذریعے ہوتا ہے۔ صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹس درکار ہوتے ہیں۔

ٹرمپ نے 301 الیکٹورل ووٹس حاصل کیے ہیں جب کہ ان کے مدِ مقابل کاملا ہیرس 226 الیکٹورل ووٹس حاصل کر سکیں ہیں جب کہ ریاست ایریزونا کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے تجزیے کے مطابق ٹرمپ نہ صرف اپنے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انہوں نے متعدد اُن کمیونیٹریز کے ووٹ بھی حاصل کیے جو روایتی طور پر ڈیموکریٹس کو ہی ووٹ کرتی ہیں۔ ان کمیونیٹیز میں سیاہ فام مرد، لیٹینو اور نوجوان ووٹرز شامل ہیں۔

ٹرمپ نے بدھ کی علی الصباح اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ ان کی حمایت کرنے والے مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں افریقی، ہسپانوی، عرب اور ایشیائی امیریکن سمیت یونین اور ایسے افراد جن کی کوئی یونین نہیں وہ شامل ہیں۔

ٹرمپ گزشتہ 20 برس کے دوران پاپولر ووٹس حاصل کرنے والے پہلے ری پبلکن صدارتی امیدوار ہیں۔




کئی مختلف نسلی آبادیوں میں ٹرمپ سے متعلق تحفظات کے باوجود ان کے پیغامات اور کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

نیو یارک کے سارہ لارنس کالج سے وابستہ پولیٹکس اور سوشل سائنس کے پروفیسر سیموئل ابرامز کہتے ہیں حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ بات دلچسپ ہے کہ کچھ چیزوں کا اثر ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا۔

ان کے بقول اس صدارتی انتخاب میں بھی یہی ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بعض فوجداری الزامات کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔

واضح رہے کہ صدارتی انتخاب سے قبل ٹرمپ کو جعلی کاروباری ریکارڈ کے 34 الزامات کا سامنا تھا۔

سیموئل ابرامز کے مطابق ٹرمپ نے کئی حلقوں کی توجہ اس طرح حاصل کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے کہا "میں آپ کے درمیان موجود ہوں، آپ کی جدوجہد سمجھ سکتا ہوں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ جس طرح کی صورتِ حال ہے اس سے بہتر ہو سکتی تھی اور میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسے آسان بنانا چاہتا ہوں۔ میں آپ کے والٹ میں زیادہ رقم لانے میں مدد دینے کا خواہش مند ہوں۔”

انہوں نے کہا کہ اخبارات اور میڈیا ٹرمپ کی غیر معمولی باتوں کا ذکر کرتے رہے لیکن آخرکار امریکہ فرسٹ اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا نعرہ۔ اس کے علاوہ "مجھے آپ کی ضرورت کا پتا ہے اور میں آپ کی مدد کے لیے یہاں موجود ہوں۔” جیسے نعرے مضبوط پیغام بنے۔

ری پبلکنز کا چار سال میں پہلی بار سینیٹ میں کنٹرول





please wait



No media source now available

ٹرمپ کی انتخابی مہم نے پوڈکاسٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ نے نامور پوڈکاسٹر جو روگن کے شو میں شرکت کی تھی جسے یوٹیوب پر تقریباً چار کروڑ 70 لاکھ افراد نے دیکھا تھا۔

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ اسکول آف پبلکن افیئرز سے وابستہ پروفیسر تھام ریلی کہتے ہیں انہوں نے نوجوانوں کو قائل کرنے کا ہدف بنایا اور انہوں نے ایسے ووٹرز کو مخاطب کیا جو انہیں ووٹ نہیں دیتے تھے۔

پروفیسر تھام کے مطابق ٹرمپ کی انتخابی مہم نے مہنگائی سے پریشان افراد سے رابطہ کیا اور پھر انتخابی نتیجے میں انہیں اس کا ثمر ملا ہے۔

ٹرمپ کے مدِ مقابل ڈیموکریٹک امیدار کاملا ہیرس کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے محض تقریباً 100 روز ملے تھے۔ صدر جو بائیڈن رواں برس جولائی میں انتخابی دوڑ سے دست بردار ہو گئے تھے۔

ریلی کے خیال میں کاملا ہیرس کی انتخابی مہم کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ کاملا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے بہت کم وقت ملا تھا۔


ووٹرز مشی گن کے شہر ڈئیر بورن میں منگل،5 نومبرکواپنے بیلٹس کا انتظار کر رہے ہیں۔(اے پی فوٹو)

ووٹرز مشی گن کے شہر ڈئیر بورن میں منگل،5 نومبرکواپنے بیلٹس کا انتظار کر رہے ہیں۔(اے پی فوٹو)

ریلی نے کہا کہ کاملا نے صدر بائیڈن کی پالیسیوں سے خود کو دور رکھنے کے لیے کافی جدوجہد کی۔ خاص طور پر بائیڈن کی معاشی پالیسی کے علاوہ امیگریشن اور اکناموی سے متعلق اپنا ایجنڈا پیش کرنے میں بھی انہیں کافی محنت کرنا پڑی۔

ایک غیر مقبول صدر سے فاصلہ اختیار نہ کرنے کی نااہلی نے ہیرس کی کامیابی کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔

ریلی نے کہا کہ یہ واضح تھا کہ امریکی عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور ہیرس کا انتخابی دوڑ میں ہونا کئی لوگوں کے لیے ایسا ہی تھا جیسے بائیڈن حکومت کا تسلسل۔

کاملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمریز میں شامل نہیں تھیں کیوں کہ بائیڈن پرائمیریز کے مکمل ہونے پر انتخابی دوڑ سے دستبردار ہوئے تھے۔

پرائمریز ریاستی سطح پر امیدواروں کے چناؤ کا طریقہ ہے جس میں پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹرز صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔

ابرامز کا خیال ہے کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے کہ کاملا کو اس امتحان سے نہیں گزارا گیا۔ کیوں کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پرائمریز میں امیدوار کی کمزوریاں سامنے آتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ وہ الیکشن لڑ سکتا ہے یا نہیں۔




دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کاملا ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسقاطِ حمل کے حقوق پر بہت زیادہ اور معیشت پر بہت کم توجہ دی۔

ری پبلکن پارٹی کے اسٹرٹیجسٹ جیسن کیبل رائے اسقاطِ حمل کے مسئلے پر کہتے ہیں کہ یہ ایک تقسیم کرنے والا مسئلہ تھا جس نے ووٹرز کو متاثر کیا۔ لیکن جب آپ ایک قدم پیچھے لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف ایک فی صد امریکی ووٹرز کا بلواسطہ یا بلاواسطہ یہ مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، کم آمدنی اور گھریلوں اخراجات تمام ووٹرز کا مسئلہ ہے جن سے وہ نمٹ رہے ہیں۔

یہ جاننا مشکل ہے کہ ہیرس کا سیاہ فام ہونا ہیرس کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ الیکشن سے قبل پیو ریسرچ کے پول کے مطابق 30 فی صد افراد کا کہنا تھا کاملا ہیرس کی صنف الیکشن میں کامیابی کے لیے چیلنج ہو سکتی ہے۔

ابرامز کہتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں سوچتے کہ نسلی تفریق یا صنف انتخابی جیت یا ہار کے گرد گھومتی ہے۔

ابرامز نے کہا کہ ٹرمپ کے پیغامات ہیرس کے مقابلے میں زیادہ پُراثر تھے جو ملک بھر کے ووٹروں کے لیے زیادہ معنی رکھتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button