گزشتہ دس ماہ کے دوران وفاقی ٹیکس محتسب کی غیر معمولی کارکردگی
وفاقی ٹیکس محتسب کے دفاتر نے ٹیکس دہندگان کے حقوق کے تحفظ اور ٹیکس انتظامیہ کے فیصلوں کو منصفانہ بنانے کیلئے وفاقی ٹیکس محتسب (FTO) کے دفتر نے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی قیادت میں متاثر کن پیش رفت دیکھی ہے۔ سن 2000ء میں اپنے قیام کے بعد سے، ایف ٹی او کے دفاتر کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا تھا، محدود عوامی رابطوں کی وجہ سے شکایات کم تھیں۔ ٹیکس دہندگان کے جائز حقوق کے تحفظ کا فقدان تھا۔ ایف بی آر کے علاقائی دفاتر میں بدانتظامی کی روک تھام کیلئے محدود تعداد میں شکایات مل رہی تھیں۔ بڑی وجہ ٹیکس دہندگان کے اعتماد میں کمی تھی۔ ایف ٹی او، ڈاکٹر آصف محمود جاہ جہاں کہیں بھی آگاہی مہم پر جاتے تھے، ٹیکس دہندگان یہی ایک سوال اٹھاتے تھے کہ ایف ٹی او کی بات نہیں مانی جاتی، یا یہ کہ ایف ٹی او میں شکایت کرنے پر آڈٹ کھول دیا جاتا ہے۔ آج، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شکایات کی تعداد دو ہزار سالانہ سے بڑھ کر دس ماہ میں دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ آڈٹ کی شکایات اِکا دُکا ہوں گی، تاہم، آڈٹ کے نوٹسز ایف ٹی او میں آنے سے پہلے جاری کئے جا چکے تھے۔ ایف ٹی او نے ان میں بھی ٹیکس دہندگان کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ، ایک مشاق افسر اور ٹیکس امور کے ماہر ہیں، ان کے باگ ڈور سنبھالنے سے، اس دفتر میں اہم تبدیلیاں آئیں، جن سے شکایات کی تعداد اور کارکردگی، دونوں میں اضافہ ہوا۔
گزشتہ دس مہینوں کے دوران، ایف ٹی او سیکرٹریٹ کو 10 ہزار 515 شکایات ملیں جن میں سے 9 ہزار 900 شکایات کو حل کر دیا گیا۔ موجودہ ایف ٹی او کے دور کو نکال دیں تو شکایات کی تعداد کبھی 2800 سالانہ سے نہیں بڑھی۔ سن 2023 میں 8 ہزار سے زائد شکایات ملی تھیں۔ رواں کیلنڈر سال کے پہلے دس ماہ میں شکایات کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی اب ہم اپنے ہی بنائے گئے ریکارڈ کو ہر سال توڑ رہے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہم بغیر کسی اضافی مالی وسائل کے، ٹیکس انتظامیہ سے شکایات کے حل کی تعداد، 2000ء کے مقابلے میں اب کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ پچھلے ادوار کے مقابلے میں کارکردگی میں اضافہ متاثر کن ہے۔ ایسا عوام الناس کے ایف ٹی او پر اعتماد، اور ایف بی آر کی جانب سے ہمارے 98 فیصد فیصلوں پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہوا ہے۔
خاص طور پر، FTO آرڈیننس کی شق 33 پر موثر عمل درآمد نے صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کے استعمال سے ٹیکس دہندگان کے مسائل گھنٹوں میں بھی حل ہونے لگے ہیں۔ اس شق کا مقصد ٹیکس تنازعات/ معاملات کو غیر رسمی طور پر حل کرانا ہے۔ آسان زبان میں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس شق میں قانون کی عمل داری کیلئے آسان اور مختصر ترین راستہ اختیار کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔
ایف ٹی او کی مداخلت کا ایک اہم اثر تاخیر سے ریفنڈ کی ادائیگی کی تیز رفتار میں انتہائی تیزی آئی۔ پچھلے سال ادارے نے 17 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم واپس دلائی۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ریکارڈ تعداد میں اپنی تحریک کی تحقیقات کی۔ ان سے ٹیکس انتظامیہ کے نظامی مسائل کے حل، ٹیکس دہندگان کو ان کے مالیاتی حقوق سے آگاہی اور بہتر ٹیکس انتظامیہ کے ذریعے عوامی شکایات میں کمی کی کوششوں سے ایف ٹی او کی لگن ظاہر ہوتی ہے۔ ہم نے 2024 میں 117 آوٹ ریچ سیشنز کیے۔ FTO کی کارکردگی کو ایک تجربہ کار مشاورتی ٹیم نے تقویت دی، یہ ٹیم بھی عوام کو ٹیکس قوانین اور ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کوششوں سے عوام میں اعتماد کو فروغ ملا۔ اب ٹیکس دہندگان ایف ٹی او کے ادارے سے اپنی شکایات کا ازالہ کرانے میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ پیپر لیس اور ریموٹ ہیئرنگ سلوشنز ۔۔۔ جیسا کہ، کسٹم زوم لنکس کے انضمام نے دنیا بھر کے ٹیکس نظام میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اور یہ جدید سہولت خیبر سے کراچی تک ہمارے ہر علاقائی دفتر میں موجود ہے۔ موثر راطبوں سے جہاں ریاستہائے متحدہ امریکہ، چین، یورپی ممالک، کینیڈا، مشرق وسطیٰ اور چین نے فائدہ اٹھایا وہیں ہمارے پاکستانی بھائی بھی اس جدید نظام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ہماری کارکردگی اس قدر بہتر تھی کہ بحرین نے اپنے پانچ ارکان تربیت کیلئے او ٹی او کے دفتر بھجوائے۔ اب مزید ممالک بھی تربیت کیلئے رابطہ کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو ٹیکس قوانین سے آگاہی دینے کیلئے ایف ٹی او نے پاکستان کا ایک بڑا ٹیکس تربیتی پروگرام شروع کیا ہے، پہلے مرحلے میں 72 سے زائد نوجوان تربیت حاصل کرنے کے بعد مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایف ٹی او نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو پنجاب کونسل آف آرٹس اینڈ کلچر کی طرف سے بلا جواز ودہولڈنگ ٹیکس کٹوتیوں پر سفارشات جاری کیں۔ ان فیصلوں نے ٹیکس کٹوتیوں کو انکم ٹیکس آرڈیننس کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ یقنین کیجئے، بچوں کے دو لاکھ روپے کے مشاہرے پر 80 ہزار روپے کا ٹیکس کاٹا جا رہا تھا۔ جبکہ، پرفارمز کی پندرہ بیس ہزار روپے کی آمدنی پر 20 فیصد تک کٹوتیاں کی جا رہی تھیں۔ اب سرکاری اور غیر سرکاری ودہولڈنگ ایجنٹس کو چھ لاکھ روپے سے کم آمدنی والے افراد سے غیر منصفانہ ٹیکس کی وصولی روک دی گئی ہے۔
FTO نے ایس آر او نمبر SRO 350(I)/2024 کے حوالے سے کارروائی کی، ایف بی آر کا یہ حکم سیلز ٹیکس ریٹرن داخل کرانے میں مشکلات کا باعث بن رہا تھا۔ یہ حکم معاشی سرگرمیاں محدود کرنے کا باعث تھا۔ اس حکم کا تعلق رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کاروباری افراد سے ہے۔ غیر رجسٹرڈ شخصیات کے ساتھ کاروبار کرنے والے رجسٹرڈ اداروں کیلئے سیلز ٹیکس ریٹرن داخل کرنا، ریفنڈ لینا ناممکن ہو گیا تھا۔ ایف ٹی او نے ایف بی آر پر زور دیا کہ وہ اپنا ای فائلنگ کا نظام آسان اور بہتر بنائے، یعنی آئی آر آئی ایس کو اپ ڈیٹ کر کے ان مسائل کو حل کرے اور رہنما خطوط جاری کرے۔
FTO نے سائبر سیکیورٹی کی خلاف ورزی کی تحقیقات بھی کی جس کے نتیجے میں 81 ارب روپے کے جعلی لین دین کا انکشاف ہوا۔ تحقیقات سے ایف بی آر کی ڈیٹا سیکیورٹی میں بھی اہم کمزوریوں کا انکشاف ہوا۔ سائبر حملوں کے نتیجے میں 81 ارب روپے کی جعلی خرید و فروخت پکڑی گئی، جعلی انوائسز کے ذریعے ساڑھے 14 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا گیا۔ ایف ٹی او نے ٹیکس دہندگان کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے اور مجرموں کو پکڑنے کے لیے فوری کارروائی کی سفارش کی۔سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے ایف بی آر کو ضروری ہدایات دی گئیں۔ یہ پیش رفت FTO کے بڑھتے ہوئے کردار اور شفافیت، جوابدہی، اور ٹیکس دہندگان کے حقوق کے تحفظ کے لیے تجدید عہد کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایف ٹی او نے فیصلہ کن کارروائیوں اور سٹریٹجک اصلاحات کے ذریعے ٹیکس انتظامیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انصاف کی فراہمی کے لیے نئے معیارات قائم کئے ہیں۔
اشتہار