بھارت کے یوم جمہوریہ پر جب پاکستانی رہنما کو مہمان خصوصی بنایا گیا
محمد ہارون عباس قمر
بھارت کی آزادی کے بعد یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کی روایت بھارت کی سفارتی حکمت عملی اور عالمی تعلقات کو فروغ دینے کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ روایت 1950 میں اس وقت شروع ہوئی جب انڈونیشیا کے صدر سوکارنو کو پہلی بار یوم جمہوریہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ تب سے یہ روایت مسلسل جاری ہے، جس کا مقصد عالمی برادری میں بھارت کے مقام کو مضبوط کرنا اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
دلچسپ طور پر، بھارت نے دو بار پاکستانی رہنماؤں کو بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مدعو کیا۔ پہلی بار 1955 میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کی امیدیں موجود تھیں۔ دوسری بار 1965 میں پاکستان کے وزیر خوراک و زراعت رانا عبدالحمید نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی۔ تاہم، 1965 کی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے، اور اس کے بعد سے کسی پاکستانی رہنما کو یوم جمہوریہ پر مدعو نہیں کیا گیا۔
یہ روایت صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ چین جیسے ممالک کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا، جن کے ساتھ بھارت کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔ 1958 میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے مارشل ین جیان ینگ نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی۔
دیگر اہم شخصیات میں 1961 میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کی شرکت قابل ذکر ہے، جو بھارت کی آزادی کے بعد پہلی بار برطانوی شاہی خاندان کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ اسی طرح، 1984 میں یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو اور حالیہ طور پر 2023 میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی شرکت بھارت کی عالمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔
یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کے انتخاب کا عمل وزارت خارجہ کے ذریعے انجام پاتا ہے، جہاں مہمان ملک کے ساتھ تعلقات، سفارتی ترجیحات اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ان مہمانوں کا استقبال شاندار انداز میں کیا جاتا ہے، جس میں گارڈ آف آنر، خصوصی ضیافتیں، اور ان کے قیام کا مکمل انتظام شامل ہوتا ہے۔
یہ روایت بھارت کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔