اعلان بالفور یہودی ریاست کے لیے نہیں، صرف یہودیوں سے ہمدردی کے لیے تھا: روڈرک بالفور
میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے مشہور بالفور خاندان سے تعلق رکھنے والے ہاؤس آف لارڈز کے رکن اور سابق وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے پڑ بھتیجے روڈرک بالفور نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ برطانیہ کا اصل مقصد اسرائیل کی صورت میں ایک یہودی ریاست کی تخلیق کرنا نہیں تھا۔ نہ ہی کوئی ایسا وعدہ کیا گیا تھا۔ بلکہ یہودیوں کے ساتھ محض اظہار ہمدردی مقصود تھا۔ انہوں نے یہ انٹرویو ‘العربیہ’ کو دیا ہے۔
یاد رہے آرتھر بالفور جن سے منسوب ہے کہ انہوں نے 1917 میں بالفور ڈکلیریشن یہودیوں کی فلسطین میں ریاست قائم کرنے کے لیے بنیادی خاکے کے طور پر پیش کیا تھا۔ جس کی بنیاد پر اگلے اٹھائیس برسوں میں فلسطین میں اس وقت کی عالمی طاقتوں کی مدد سے اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ تاہم اس خاندان سے تعلق رکھنے والے لارڈ روڈرک بالفور نے ہٹ کر بات کی ہے کہ مقصد اسرائیلی ریاست قائم کرکے دینا نہیں تھا بلکہ یہودیوں سے صرف اظہار ہمدردی تھا۔
ان کے مطابق اعلان بالفور کو اس کے اصل متن کی روشنی میں سمجھا جانا چاہیے نہ کہ اس کی بعد ازاں کی گئی تشریحات اور تاویلات سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
بالفور نے کہا یہ ڈکلیئریشن میرے ہاتھ میں ہے میں ہمیشہ سے اسے درست انداز سے سامنے لانا چاہتا ہوں۔
‘العربیہ’ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا عزت مآب بادشاہ کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے حق میں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسرائیلی ریاست کے قیام کی حمایت نہیں کریں گے لیکن اس وقت فلسطین کے حق میں دباؤ کی کیفیت ہے، اس کے تحت محض ہمدردی کا اعلان ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے یہ سب خواہش ہے۔
بالفور نے کہا عام طور پر بھول جانے والی اسرائیل کے حالات میں مجھے اکثر پریشانی میں مبتلا رکھتی ہے۔
یہ بات واضح طور پر سمجھی جاتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں کہا کریں گے جس سے فلسطین میں غیر یہودیوں کے حقوق متاثر ہوں۔ اس لیے جو کچھ آج اسرائیل میں ہو رہا ہے یہ وہ نہیں ہے جو اس زمانے کی برطانوی حکومت نے چاہا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا میرا بالفور خاندان سے تعلق ہے جو میرے نام کا بھی حصہ ہے مگر بالفور ڈکلیئریشن کا میری پرورش میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
روڈرک بالفور نے کہا یہ جو بالفور ڈکلیئریشن آپ نے ہمارے گھر کے بیت الخلاء کے دروازے پیچھے لٹکا ہوا دیکھ ہے۔ آپ نے اسے پڑھا ہوگا۔ اس کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کرتا۔ جب میں بڑا ہو رہا تھا ، یہ پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی بات ہے۔ ان برسوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں تھا۔
البتہ مجھے اس اعلامیے کے حوالے سے پہلی بار اس وقت سامنا کرنا پڑا جب پیرس میں تھا اور اسرائیل اور عربوں کی 1967 کی چھ روز جنگ چھڑ گئی۔
آپ حیران ہوں گے کہ اس وقت سبھی لوگ اسرائیل کے حامی تھے۔ مگر آج جو صورت حال ہے، تعجب انگیز حد تک اس وقت سے مختلف ہے۔
اس اہم تاریخی دستاویز کی وجہ سے انہیں اس کی ذمہ داری لینا پڑتی ہے، فخر ہوتا ہے ایک تنازعے میں الجھنا پڑتا ہے۔ روڈرک بالفور نے کہا، جو چیز حقیقت میں لکھی گئی ہو وہ تو میرے لیے باعث فخر ہے۔ کیونکہ اس میں ہمیں اپنے عظیم چچا کے نام بالفور کا ذکر ملتا ہے۔ کہ انہوں نے بطور وزیر خارجہ برطانیہ ایسا کیا تھا۔ درحقیقت بالفور ایک فلسفی تھے۔ وہ ایک انسان دوست شخصیت تھے۔ ان کا کابینہ بھی کافی اثر رسوخ تھا۔
اس لیے بالفور خاندان سے تعلق کی وجہ سے مانتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے۔ اس لیے میں نے اس انٹرویو کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ کیونکہ اس سے مجھے اعلان بالفور کا دفاع کرنے کا موقع بھی ملا ہے اور یہ بھی کہنے کا موقع ملا ہے کہ یہ اعلان بالفور درحقیقت کیا کہتا ہے۔
اس سوال پر کہ ایک فریق کی اعلان بالفور میں ہمدردی و حمایت اور دوسرے یعنی فلسطینیوں کی کیوں نہیں۔ اس سوال پر آرتھر بالفور کے خاندان کے اس چشم و چراغ نے کہا’ 1917 میں تو فلسطینی ایک مظلوم قوم نہیں تھے۔ نہ ان پر اس وقت کوئی ظلم و ستم جاری تھا۔ ان کا کوئی اس دور میں تعاقب بھی نہیں کر رہا تھا۔ وہ بڑے سکون سے زراعت کی بنیاد پر زندگی گذار رہے تھے اور بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اس لیے یہی خیال تھا کہ کچھ یہودی بھی جا کر امن سے وہاں رہ لیں گے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو جائے گا۔
برطانیہ کی طرف سے اب اتنا عرصہ بعد تسلیم کیے جانے پر بالفور نے کہا یہ محض ایک علامتی پیش رفت ہے۔ مگر پھر بھی کافی اہم واقعہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم دوریاستی حل کے حامی ہیں۔
لیکن اسرائیل ایسا سوچتا ہے نہ حماس۔ حماس اسرائیل سے نجات چاہتا ہے۔ جبکہ اسرائیل کسی بھی عرب پر بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہوں گا کہ کسی بامعنی چیز کے ہونے تک بہت سے واقعات کے ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔
دو ریاستی حل کے آج بھی قابل عمل ہونے کے بارے میں سوال پر انہوں نے اسرائیلی نکتہ نظر سے جواب کا آغاز کیا اور کہا اسرائیلی تو واضح طور پر ایسا نہیں سوچتے۔ مجھے نہیں لگتا حماس والے بھی ایسا سوچتے ہیں۔
کیونکہ حماس کو اسرائیل سے آزادی چاہیے اور اسرائیل کو کسی بھی عرب ملک پر اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے میرے خیال میں بڑی طاقتوں کے ذریعے پائیدار علاقائی تعاون کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں مذہبی رجحانات پر تجارت نے غلبہ پالیا ہے۔ سب امن کے بہت بہت خواہش مند ہیں۔ اس لیے امن ضروری ہے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ فلسطینیوں اور یہودیوں نے کبھی شاندار معیشت کھڑی نہیں کی ہے۔