ٹرمپ کے جیتنے پر امریکا میں نسلی فسادات کا خطرہ
امریکا کے صدارتی انتخاب میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔ وہ 20 جنوری کو صدر کے منصب کا حلف اٹھائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو کئی زاویوں سے غیر معمولی قرار دیا جارہا ہے۔ ایک طرف امریکی محکمہ دفاع پریشان ہے کہ اگر وہ غیر قانونی اقدامات کریں گے تو کس طور دفاع کیا جائے گا اور کیا ردِعمل دیا جائے گا۔ اور دوسری طرف معاشرتی سطح پر بھی خرابیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کُھل کر کہا تھا کہ اگر غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکا سے نکالنے کے لیے فوج کو بھی استعمال کرنا پڑا تو ایسا کرنے سے کسی بھی صورت دریغ نہیں کیا جائے گا۔
سیاسی مبصرین اور اسٹریٹجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف اقدامات کے حوالے سے اگر احتیاط نہ برتی گئی، شائستگی نہ اپنائی گئی اور سوچے سمجھے بغیر سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی گئی تو امریکی معاشرے میں غیر معمولی نوعیت کا انتشار پیدا ہوگا۔ غیر قانونی تارکین کا وطن افریقا سے بھی ہے اور مشرقِ وسطیٰ سے بھی۔ جنوبی ایشیا بالخصوص برِصغیر سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن بھی امریکی سرزمین پر اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر ان سب کے خلاف غیر لچک دار پالیسی اپنائی گئی تو ان نسلوں اور خطوں کے جو لوگ قانونی طور پر امریکا میں آباد ہیں اُن میں شدید اضطراب پیدا ہوگا۔ جو معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح نے ایک طرف تو غیر قانونی تارکینِ وطن کو پریشانی سے دوچار کیا ہے اور دوسری طرف امریکا کے سیاہ فام باشندوں کے لیے بھی خاصی پیچیدہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ امریکا کے طول و عرض میں سیل فون اور دیگر ڈیوائسز پر سیاہ فام افراد کو خالص نسل پرستانہ پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ سیاہ فام باشندوں کو اس بات پر تذلیل کا سامنا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دینے میں کنجوسی دکھائی ہے۔ نسل پرستانہ پیغامات میں سیاہ فام باشندوں کو اُن کا عہدِ غلامی یاد دلایا گیا ہے۔ انتہائی اہانت آمیز الفاظ اور پیرائے میں کہا جارہا ہے کہ اب انہیں (سفید فام باشندوں کی اکثریت کی طرف سے) غیر معمولی شدت والے ردِعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
سیاسی مبصرین نے اس صورتِ حال کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسل پرستانہ اور اہانت آمیز پیغامات سے امریکی معاشرے کا ایک بڑا حصہ اپنی تذلیل اور توہین محسوس کرے گا جس کے نتیجے میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی اور نسلی بنیاد پر فسادات کی راہ بھی تیزی سے ہموار ہوگی۔ سیاسی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ سیاہ فام آبادی کو دیوار سے لگانے کی کوشش اور نسل پرستانہ سوچ کے ساتھ اُن پر یلغار کسی بھی اعتبار سے مفید ثابت نہیں ہوگی۔ حکومتی اداروں کو اس حوالے سے غیر معمولی توجہ کے ساتھ کام کرنا ہے اور اُن تمام لوگوں پر نظر رکھنی ہے جو معاشرے کا امن اور استحکام ٹھکانے لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔