ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

ساتویں ’’ہم ایوارڈز‘‘ میں “سنو چندا “ نے میدان مار لیا

ہیوسٹن میں گذشتہ ایک ہفتے سے جاری گہما گہمی کا ہفتے کی رات ہونے والے ایوارڈز کے ساتھ ہی اختتام ہوا۔ ریڈ کارپٹ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے پانچ اور ایوارڈز کی تقریب ساڑھے سات بجے طے تھی جس کے لیے شائقین چار بجے ہی این۔آر۔جی ارینا میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن ریڈ کارپٹ ساڑھے چھ اور تقریب نو بجے رات کو شروع ہوئی جس کا اختتام رات ایک بجے ہوا۔

آگے بڑھنے سے قبل کچھ حال ریڈ کارپٹ کا۔ ایک الگ ہال میں داخل ہوتے ہی ’’ ہم ٹی وی‘‘ نے اپنے لیے الگ ریڈ کارپٹ بچھا رکھا تھا اور وہاں سے دور ایک کونے میں باقی پریس کے لیے کارپٹ بچھا ہوا تھا ۔ چونکہ اس حال میں پرستاروں کا بھی ہجوم تھا لہذا ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام لانے میں‘‘ کے مصداق سجے بنے ستاروں کے باقی پریس تک پہنچنے میں ہزاروں سیلفیاں حائل تھیں۔ بہرحال پریس اور سیلفیوں کی دھینگا مشتی میں ساڑھے آٹھ بجے ریڈ کارپٹ کا اختتام ہوا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا نہیں تھا۔ کافی سیٹیں خالی تھیں۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد ہارون نے اپنے معروف ترانے “دل پاکستانی ہے‘‘ پر پرفارمنس دی۔ میزبانی کا آغاز میکال حسن اور علی رحمان خان نے کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ بشری انصاری، صنم جنگ، عائشہ عمر اور احمد بٹ بھی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ حاضرین کی جانب سے سب سے زیادہ داد بشری اور احمد بٹ کے چٹکلوں پر ملی۔

ایوارڈ کے لیے اس بار جو ڈرامے نامزد ہوئے ان میں ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘، ’’باندی‘‘، ’’تعبیر‘‘، ’’بیلا پور کی ڈائن‘‘، ’’عشق تماشا‘‘ اور ’’سنو چندا ‘‘شامل تھے ۔ ان تمام ڈراموں کے رائیٹرز، ڈائریکٹرز اور اداکاروں کو نامزد کیا گیا تھا۔ بہترین ڈرامے کا ایوارڈ جیتا ”سنو چندا ‘‘نے۔ بہترین میل اداکار فرحان سعید اور بہترین فی میل اداکارہ اقرا عزیز قرار پائیں۔ دونوں کو یہ ایوارڈ ڈرامہ سیریل ’’سنو چندا ‘‘ کے لیے دیا گیا۔

بہترین ڈرامہ ڈائریکٹر کا ایوارڈ کاشف نثار کو ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘ کے لیے دیا گیا۔ یہ ڈرامہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے موضوع پر بنایا گیا تھا۔ کاشف کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ انہوں نے دو بچیوں کا باپ ہونے کی وجہ سے پیش کیا۔ بہترین ڈرامہ رائیٹر کا ایوارڈ صائمہ اکرم چوہدری کو ’’سنو چندا‘‘ کے لیے اور بی گل کو ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘ کے لیے ملا۔ موسٹ امپیکٹ فل اداکار اور منفی کردار کے دونوں ایوارڈ ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ کے لیے‘‘ نعمان اعجاز کے حصے میں آئے جس پر ان کے نئے اداکاروں سے مزاح کے رنگ میں کہے گئے جملے “سوری بوائز” پر حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔

نعمان نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے ذرا اور محنت کرو۔ سپورٹنگ میل اداکار کا ایوارڈ عدنان شاہ ٹیپو کو ’’سنو چندا‘‘ اور یاسر حسین کو ’’باندی‘‘ کے لیے اور بہترین سپورٹنگ فی۔ میل کا ایوارڈ نادیہ افگن کو ’’سنو چندا ‘‘کے لیے ملا۔ نادیہ افگن کا کہنا تھا کہ بائیس سالہ کیرئیر میں انہیں یہ پہلا ایوارڈ ملا ہے۔ بیسٹ آن اسکرین کپل کا ایوارڈ بھی اقرا عزیز اور فرحان سعید نے ڈرامہ سیریل ’’سنو چندا‘‘ کے لیے حاصل کیا۔ نیو ٹیلنٹ یا نئے بہترین اداکار کا ایوارڈ اسامہ طاہر کو ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘ اور بہترین نئی اداکارہ کا ایوارڈ علیزے شاہ کو دیا گیا۔

بہترین اوریجنل ساؤنڈ ٹریک یا ٹائیٹل سانگ کا ایوارڈ ڈرامہ سیریل ’’باندی‘‘ کو ملا۔ بیسٹ چائلڈ سٹار کا ایوارڈ ’’سنو چندا ‘‘ کے اداکار سمیع خان کو ملا۔ یوں کل آٹھ ایوارڈز کے ساتھ ’’سنو چندا ‘‘سر فہرست رہا جبکہ پانچ ایوارڈز کے ساتھ ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘ دوسرے نمبر پر رہا۔ ’’باندی‘‘ دو اور’’ عشق تماشا‘‘ ایک جبکہ ’’تعبیر‘‘ اور’’بیلا پور کی ڈائن‘‘ کوئی بھی ایوارڈ نہ جیت پائے۔

اس کے ساتھ ساتھ دیگر نامزگیوں میں بہترین سوپ ’’سانوری‘‘، سوپ میں بہترین اداکاری پر فی میل کے لیے زینب احمد اور میل کے لیے اسامہ کو چنا گیا۔ بہترین ٹیلی فلم کا ایوارڈ مومنہ درید کی فلم ’’ اس دل کی ایسی کی تیسی‘‘ کو ملا۔ فلم’’ پرواز ہے جنوں‘‘ میں ہانیہ عامر اور حمزہ علی عباسی کو ان کی کارکردگی کے لیے ایوارڈ دیا گیا۔ ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی جس کا نام تھا گولڈن پلیٹ آف ایکسی لینس، جس کے لیے ہم انٹرٹینمنٹ کی بانی سلطانہ صدیقی کو چنا گیا۔ اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ شامل تھا جس کے لئے معروف گلوکار عالمگیر کو منتخب کیا گیا۔ سلطانہ صدیقی نے ایوارڈ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ میوزک ڈائریکٹر تھیں اور کوئی بھی نئے گلوکاروں کو موقع دینے کو تیار نہیں تھا تو انہوں نے عالمگیر کو موقع دیا اور ساتھی میوزک ڈائریکٹرز کی جانب سے ہڑتال کی دھمکیوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا۔ باقی ایوارڈز کے ساتھ کچھ مزاحیہ ایوارڈز بھی دیے گئے جنہیں سموسہ ایوارڈ کا نام دیا گیا تھا۔ احمد بٹ نے فی میل ڈریسنگ میں ماورہ، سارہ خان، زیبا بختیار اور ہانیہ عامر کو سٹیج پر بلایا اور ان سے وجہ پوچھی کہ آخر انہوں نے کیوں یہ کپڑے منتخب کیے۔ ہانیہ کی شربتی رنگ کی ساڑھی کو روح افزا، سارہ خان کے جوڑے کو ولیمے کا جوڑہ، زیبا کے کپڑوں کے رنگ کو کشمیری چائے اور ماورہ کو گرین ٹی سے تشبیہ دی اور ایوارڈ زیبا بختیار کو دیا گیا۔

اسی طرح اذان سمیع خان، عدنان صدیقی اور منیب بٹ کے کپڑوں سے متعلق سوال کیے کہ آخر منیب نے بیوی کی ساڑھی کا کوٹ کیوں سلوایا اور بھڑکیلے جوتے کیوں پہنے۔ یہ مزاحیہ ایوارڈ عدنان صدیقی کو م ۔ چونکہ یہ سب ڈرامے، ٹیلی فلمز اور سوپ مومنہ درید اور مومل انٹرٹینمنٹ کے بینر تلے بنے، اسی لیے زیادہ ایوارڈز ’’ہم‘‘ چینل ہی کو دیے جانے پر سوشل میڈیا نے اسے گھر کی چیز گھر میں ہی رکھنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

سٹیج پر گاہے بگاہے پرفارمنسز بھی جاری رہیں جن میں سب سے زیادہ اذان سمیع خان، ہانیہ عامر، عاصم اظہر، مہوش حیات اور احسن خان کی پرفارمنس پر تالیاں بجیں۔ آخر میں عابدہ پروین نے صوفیانہ کلام پیش کیا لیکن تب تک رات کا ایک بج چکا تھا اور لوگوں نے حال سے نکلنا شروع کر دیا۔

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں