بھارت کا جنگی جنوبی ایشیا کے امن کیلئے خطرہ، نعیم صدیقی

پاکستان کی موجودہ صورت حال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہم من حیث القوم اتحاد و اتفاق اور صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ برد باری کا مطاہرہ کریں۔کسی بھی معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندانہ سوچ و عمل ملک اور قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ثابت ہوتی ہے۔پاکستان ایک اہم ترین اسلامی ملک ہے جسے ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے عالم اسلام میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ہماری فوج دنیا کی سب سے زیادہ منظم اور پیشہ ور فوج ہے ۔ ہمارا ملک محل وقوع اور قدرتی موسم و وسائل کے اعتبار سے اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ہم عالمی برادری میں اہم ترین مقام کے سو فیصد اہل ہیں اور اس کے لیے ہمیں پوری یکسوئی کے ساتھ ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ تعمیر ترقی کا سفر اکتیار کرنا ہو گا۔آپس کے اختلافات مین پڑ کر ملک اور قوم کیلئے مشکلات کھڑی کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے ۔لازم ہے کہ ہم اپنے دل کشادہ کریں پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیں اور ملک کے اندر تمام اداروں کے درمیان بہترین اور مثالی تعلقات قائم رکھے جائیں سب کا مقصد ملک کی بہتری ہونا چاہئے،ذاتی مفاد اور عناد کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ یہ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ ملک کو درپیش مسائل اور جتنے بھی چیلنج ہیں ان پر سنجیدگی سے غور و فکر کرے اور اتفاق کے ساتھ راہ عمل کا تعین کیا جائے ادارہ کوئی بھی ہو اس کا تقدس قائم رکھنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔عدلیہ،فوج ، حکومت،پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کا آپس میں میں اتحاد اور تعاون ملک اور قوم کے مفاد میں ہونا چاہئے۔عدلیہ کے فیصلوں کو لیکر اختلافات پیدا کرنا ملک کے لئے نقسان دہ ہوسکتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھارت کے اندر عوام وزیراعظم نریندر مودی کے مسلم دشمنی اور نسلی تعصب پر مبنی فیصلون اور غیر انسانی قانون سازی پر سراپا احتجاج ہیں۔ہر شہر ہنگاموںاور جلائو گھیرائو کی لپیٹ میں ہے۔مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی مودی سرکار کے خلاف سخت ترین احتجاج کر رہے ہیں۔ایک ایسا ہندو ملک جہاں 25 کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں، وہ مودی کی زیرِ قیادت اپنے مسلمان باشندوں کو تنہا اور رسوا کرنے کے لیے ہر قانونی، سماجی، عسکری اور سیاسی طریقہ کار استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ وہ وقت تھا کہ ہم اپنے تمام سیاسی،سماجی اور سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے مودی سرکار کو عالمی سطح پر بے نقاب کرتے اور دنیا کو پوری قوت کے ساتھ یہ باور کرانے اور یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ بدترین دشمنی کر رہا ہے پوری وادی جیل بنا دی گئی ہے۔مقبوضہ وادی کو ہرلحاظ سے مودی حکومت نے تباہ و برباد کر دیا گذشتہ چار ماہ سے زائد عرصہ سے اسی لاکھ کشمیریوں کی زندگی مسلسل عذاب بنی ہوئی ہے۔ہمارے موجودہ حالات معاشی اور سیاسی اعتبار سے بہت ہی غیر یقینی ہیں۔کشمیر کے مسئلے نے ہمارے لیے اور بھی مشکلات بڑھا دی ہیں۔بھارت نے لائن آف کنٹرول پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔سرحدوں کی خلاف ورزی مسلسل ہو رہی ہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں میزائل نصب کردیے ہیں عالمی برادری کو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کا جنگی جنوبی ایشیا کے امن کیلئے مسلسل خطرہ ہے بھارت کو روکنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ مودی سرکار انتہا پسندی کی راہ پر چل نکلی ہے۔اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں لائن کنٹرول پر نئی دہلی کی جانب سے میزائل نصب کرنے کے بعد عوامی اور فوجی قیادت نے عالمی برادری کو بھارت کے جارحانہ اور اشتعال انگیز ڈیزائن کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ملائشیا میں اسلامی ملکوں کی کانفرنس میں پاکستان نے شرکت نہیں کی حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے خود اقوام متحدہ کے اپنے دورے کے دوران اس حوالے سے ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترکی کے صدررجب طیب اردوان سے بات بھی کی تھی۔اس وقت ملائشیا،ترکی اور ایران اسلامی ملکوں کی کانفرنس میں نمایاںہیں،جوکہ مسلمانوں کو دنیا بھر میں درپیش مسائل کے حل کے لیے 20 مسلم ممالک کے رہنما اور نمائندے ملائیشیا کے دارالحکومت ہونے والے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جہاں سعودی عرب اور پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔اگر بات کی جاتی ہے کہ ملائشیا کانفرنس مسلم امہ کو تقسیم کرے گی تو ہم ایک ذمہ دار اور ایک اہم پوزیشن رکھنے والے اسلامی ملک کی حیثیت سے سعودی عرب کے ساتھ ملائشیا اور ترکی کے معاملات پر بات چیت کر سکتے تھے۔پہلے بھی تو وزیراعظم سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں۔اپنے موجودہ مختصر دورحکومت میں انھوں نے اب تک سب سے زیادہ سعودی عرب کے چا سرکاری ر دورے کیے ہیں۔ابھی ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کر دی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تحفظات کے سبب پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے۔سعودی عرب کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث اسلامی دنیا اس وقت دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور عالمی امور کے ماہرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو دھڑے بن گئے ہیں، ایک گروپ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہے اور دوسرے میں قطر اور ترکی ہیں جبکہ پاکستان ان دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی دیکھی گئی جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ طور پر کشیدگی میں اضافے کی خبروں نے بھی سرمایہ کاروں کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری شدید متاثر ہو رہی ہے۔ہماری حکومت اور اداروں کو اس جانب نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فوری اور عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔