اسلام آبادپاکستانتازہ ترین

تیز ترین قانون سازی،عوام کی فریاد کون سنے گا، عنصر ملک

عنصر ملک

تمھیں بے وفا کہنے کی جرا ت تو نہیں لیکن۔۔اتنا ضرور کہنا ہے کہ وفائیں یوں نہیں ہوتیں
ایک بات ذہن نشین کر لی جائے کہ ہم اپنی پاکستانی فوج کو ایسے ہی اپنا سمجھتے ہیں جیسے ہمارا گھر اور خاندان کے لوگ ہیں لیکن اعلی ترین عہدوں پر بیٹھے گنتی کے لوگ صرف سیاستدانوں کا کبھی بھلا اورکبھی برا سوچتے رہیں گے اور ان کو کھیلنے کیلئے چاند دیتے رہیں گے تو یہ کھیل جاری تو رہے گا لیکن قوم در بدر ہو جائے گی ۔ملک کمزور ہو جائے گا۔وہ جو عقل کل ہیں وہ جو طاقتور ہیں وہ جو جوابدہ نہیں ہیں کیا وہ وقت کی رفتار کو روک سکتے ہیں کیا وہ میرے بنیادی حق کوغصب کر کے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں؟ اللہ تعالی کا خوف دلاتا ہوں میں ان سب کو جو کھیل کھیلتے ہیں اور پھر کھیل کا پانسہ پلٹتے ہیں۔پاکستان کے عوام کی سادہ ترین زندگی کیلئے تھوڑی سی بنیادی ضروریات ممکن بنا دو کہ یہ مشکل کام نہیں بلکہ صرف ایمانداری اور خدمت خلق کے سچے جذبے کی ضرورت ہے جو کہ تم میں نہیں ہے۔ملک کی اہم ترین کہلانے والی، عوام کی نمائندگی کی دعویدار سیاسی و جمہوری جماعتیں جن کے درمیان اینٹ اور کتے والی دشمنی کے مترادف مدت ہائے دراز سے اختلافات چلے آ رہے ہیں ان کی پھرتیوں کا اندازہ کیجئے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں پاکستان آرمی کے حوالے سے قانون سازی اور سروسز ایکٹ میں ترامیم کا معاملہ درپیش آیا تو حکومت پہلے ہی اسے فرض عین سمجھے بیٹھی تھی اپوزیشن کو معلوم ہوا تو وہ کب پیچھے رہنے والے تھے۔اندازہ کیجئے دو گھنٹے اور تیس منٹ سے کچھ کم یا زیادہ اور قومی اسمبلی و سینٹ سے یہ ترمیمی بلز تاریخ ساز اکثریت سے پاس ہو گئے۔عمران نیازی جب وزیراعظم بنے تو ان کے ووٹ 176 جبکہ آرمی ایکٹ میں ترامیم کیلئے فوج کیخاطر 315 ووٹ تھے ۔ان تنائج سے نام نہاد حکمرانوں اور اپوزیشن والوں کو اپنی عوامی حیثیت یا جمہوریت پسند ہونے کا خوب اندازہ کر لینا چاہئے۔ان ترامیم کی خاطر تمام رولز معطل کرکے چار منٹ میںبل پیش کیے گئے، اسی روز مشترکہ قائمہ کمیٹی نے بھی فخریہ انداز میںبل منظور کرلیا قومی اسمبلی سے باہر آکر چالاک وزیرِ قانون لاعلم وبے حس اور مجبور و بے کس قوم کو مبارک دے رہے تھے۔جب بل پاس کرانے کا عمل شروع ہوا تو اجلاس کی کارروائی میں سب کچھ ملا کر 8 منٹ کا وقت لگا۔ قومی سلامتی کے نام پر کسی نے ظاہر اور کسی نے چھپ کر کیا خوب مثال قائم کر دی ہے مسلم لیگ نوازنے دل میں بہت سی امیدیں اور خواہشات پال کرغیر مشروط حمایت کی تو پیپلزپارٹی ان سے چارقدم آگے رہی ۔وہ جو ہمارے نہایت محترم اراکین قومی اسمبلی و سینٹ تھے ان میں ایوان میں ان ترامیمی بلز کو پیش کرنے کے وقت نیشنل پارٹی کے 4 سینیٹرز نے مخالفت کی جبکہ ایک سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے بل کی حمایت کی۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے دونوں ایوانوں میںاحتجاج اور ایوان سے واک آٹ کیا۔ایسی جمہوریت جو پاکستان کے عوام کے مقدر میں لکھی تو نہیں گئی لیکن جس طرح عوام ان دروغ گو،نوسر باز،عیاش اور قومی خزانے پر پلنے والے سیاستدانوں کو ووٹ دیکر اپنا نمائندہ بنا کر ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ ملک اور قوم سے وفاداری اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنیکی بجائے حرام کاری و حرام خوری کے گندے جوہڑ میں اس وقت تک بڑی ڈھٹائی سے رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ان کو ذلیل و خوار کرکے بھیگ میں ملے اقتدار سے بیدخل نہیں کر دیتا۔ پاکستانی قوم کتنی بدقسمت ہے کہ آزاد وطن تو مل گیا لیکن عوام کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے, اس بالادست طبقے کے ہاتھوں جس کا گزارہ صرف عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ہوتا ہے۔خدا جانے یہ ملک تعمیرو ترقی سے کب تک محروم رہے گا یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید اگلی صدی میں بھی نہیں ملے گا اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام بدترین بالادست طبقے اور کم ظرف وہوس پرست حکمرانوں کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئے ہیں۔جس ملک میں حکمران عیاشی کرتے ہوں اور عوام زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترستے ہوں وہاں مجھے تو عذاب الہی کا انتظار رہے گا.. مجھے اب آخری بات کہنی ہے کہ میرے وطن میں پاکستانی تاریخ کی تیز ترین قانون سازی تو ہو گئی ہے کیا اب کوئی اسی جذبے کے ساتھ عوام کو زندگی کی بنیادی اور لازمی ضروریات مہیا کرنے کیلئے اپنے فرائض کی ادائیگی کرے گا یا ذلت و رسوائی اور بیروزگاری و مہنگائی نے ہی پاکستانی عوام کا مقدر رہنا ہے ….عوام پر لازم ہے کہ وہ حکمران اور بالادست طبقے پر دبائو دالیں اپنے بنیادی حق کی خاطر بولیں کہ اگر یہ لوگ عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات نہیں دے سکتے تو خود بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دیں کہ یہ سب سے آسان حل ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آسمان سے فیصلہ آنے سے پہلے عوام کا بھی فرض اور حق ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین کھینچ لیں کم از کم میں یہ نہیں چاہتا کہ کہ حکمران طبقے کے ساتھ عوام بھی مجرموں کی فہرست میں شامل ہوں.. قتیل شفائی نے کہا تھا کہ وہ منافق ہے جو ظلم سہتا ہے لیکن بغاوت نہیں کرتا۔سنو میرے دیس کے لوگو ! منافق نہ بنو بلکہ منافقین کے خلاف اپنے حق کی خاطربولنا سیکھو۔تنھارا واسطہ ایسے کم ظرف بالادست طبقے کے لوگوں سے ہے جو ہمیشہ اور ہر بار اپنے گھر میں نقب لگاتے ہیں۔
میرے لمحوں کو صدیوں میں بدلنے والے۔ ۔کاش تو نے بھی میرے درد کو سمجھا ہوتا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button