ٹیلی گرام کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

القمرآن لائن کے ٹیلی گرام گروپ میں شامل ہوں اور تازہ ترین اپ ڈیٹس موبائل پر حاصل کریں

موڈرنا کورونا ویکسین 12 سے 17 سال کے بچوں کیلئے مفید، تحقیق

موڈرنا نے کہا ہے کہ اس کی کووڈ 19 ویکسین 12 سے 17 سال کے بچوں اور نوجوانوں میں بیماری کی روک تھام کے لیے بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

امریکی کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں یہ بات بتائی گئی۔

ٹرائل میں کامیابی کے بعد اس ویکسین کو 12 سے 17 سال کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری کا راستہ کھل گیا ہے۔

اگر اس ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے تو یہ امریکا میں اس عمر کے گروپ کے لیے دستیاب دوسری کووڈ ویکسین ہوگی۔

اس سے ققبل فائزر/بائیو این ٹیک ویکسین کو اس عمر کے گروپ کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے۔

دونوں کمپنیوں کی جانب سے اس عمر کے گروپ میں ویکسین کے اثرات پر تحقیق کی جارہی تھی۔

موڈرنا کی جانب سے 12 سے 17 سال کے 37 سو سے زیادہ افراد کو کلینکل ٹرائل کا حصہ بنایا گیا تھا۔

ان رضاکاروں میں سے دوتہائی کو موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکیں دی گئی جبکہ باقی سب کو پلیسبو انجیکشن لگائے گئے۔

اس ٹرائل کا مقصد ویکسین کے استعمال سے رضاکاروں کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ بالغ افراد کے ردعمل سے کرنا تھا۔

کمپنی نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کے استعمال سے 12 سے 17 سال کے گروپ میں بننے والا مدافعتی ردعمل بالغ افراد سے ملتا جلتا تھا۔

کمپنی کی جانب سے اب جون کے شروع میں اس ڈیٹا کو ریگولیٹرز کو جمع کرانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بھی اسی طرح کی تحقیق کے بعد یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے بچوں کے لیے ویکسین کے استمال کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔

موڈرنا کی تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد کووڈ کے علامات والے کیسز بچوں میں نظر آتے ہیں۔

ٹرائل میں شامل میں 4 رضاکاروں میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی اور یہ سب پلسبو گروپ کا حصہ تھے۔

اس ٹرائل کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔

موڈرنا کے مطابق 12 سے 17 سال کی عمر کے گروپ میں ویکسن کے قابل برداشت اور محفوظ ہونے کا تسلسل بالغ افراد کے ٹرائل جیسا ہی ہے۔

اس عمر کے گروپ میں ویکسین کے استعمال سے سب سے عام مضراثرات میں سردرد، تھکاوٹ، مسلز میں تکلیف اور ٹھنڈ لگنا قابل ذکر تھے۔

کووڈ کے بعد پھیپھڑوں کو طویل المعیاد نقصان پہنچنے کی تصدیق

— شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم 3 ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

شیفیلڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحتیابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔

مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو ہسپتال میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ان کے پھیپھڑوں کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی (شی ایم آر آئی) اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں 3 ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا، کچھ کیسز میں ہسپتال سے نکلنے کے 8 ماہ بعد بھی مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ شی ایم آر آئی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں آکسیجن کے استعمال کی صلاحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی، حالانکہ سی ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی متعارف کرائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے حالانکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھرے معمول کے مطابق کام کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا جبکہ اس سے دوران خوران میں آکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر لانگ کووڈ کے شکار 70 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کے نقصان پہنچا ہوگا، مگر اس کی شتصدیق کے لیے مید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل مئی 2021 کے آغاز میں برطانیہ کی ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ 19 نمونیا کے مریضوں کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔

اس مقصد کے لیے 83 مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کا شکار ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے۔

ان مریضوں کا جائزہ 3، 6، 9 اور 12 مہینوں تک لیا گیا یعنی ہر 3 ماہ بعد ان کا معائنہ کیاگیا۔

ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیئے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی ان پڑتال کی گئی، جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

ایک سال بعد اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم 5 فیصد افراد تاحال سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔

ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور معمول کی سطح پر نہیں آسکے تھے، بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں آکسیجن کو منتقل کرنے کی صلاحیت زیادہ متاثر نظر آئی۔

ایک چوتھائی مریضوں کے سی ٹی اسکینز میں دریافت کیا گیا کہ ان کے پھیپھڑوں کے کچھ چھوٹے حصوں میں تبدیلیاں آرہی تھیں اور یہ ان افراد میں عام تھا، جن کے پھیپھڑوں میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے دوران سنگین تبدیلیاں دریافت ہوئی تھیں۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ 12 ماہ کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسی لیے تحقیق کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق میں مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اور اضافی تحقیق سے نتائج کو تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، تاہم انہوں نے چن اہم چیزوں کی ضرور شناخت کی۔

منبع: ڈان نیوز

وٹس ایپ کے ذریعے خبریں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے کلک کریں

تمام خبریں اپنے ای میل میں حاصل کرنے کے لیے اپنا ای میل لکھیے

اپنا تبصرہ بھیجیں