جموں و کشمیر

ضیا مصطفی کا ماورائے عدالت قتل: بھارتی استبداد کی ایک مثال

محمد ہارون عباس

بھارتی فوج گزشتہ 74 برس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی قبضے کی مخالفت کرنے اور ان کے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔
لائن آف کنٹرول کے قریب بے گناہ نوجوانوں کو مقبوضہ علاقے سے گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلوں میں شہید کرنا بھارتی فوجیوں کا کئی دہائیاں پرانا وطیرہ ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں کے پیچھے اصل مقصد متاثرین کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کرکے کشمیریوں کی جاری تحریک آزادی کو بدنام کرنا ہے۔ مژہل فرضی انکاونٹر،پتھری بل فرضی انکاونٹر اور برہان وانی اور سبزار احمد بٹ کی ماورائے عدالت شہادت اور 14 اکتوبر 2021 کو راولاکوٹ آزاد جموں و کشمیر میں ضیا مصطفی کی شہادت اس مذموم عمل کی مثالیں ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ضیا مصطفی کا کیس 18 سال سے زیر سماعت تھااور وہ جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں قید تھے۔ بھارتی پولیس کے مطابق ضیا مصطفی کو پونچھ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران ایک ٹھکانے کی نشاندہی کے لیے بھاٹا دوریاں لے جایا گیا اور بعد ازاں کراس فائر میں شہید کر دیاگیا۔
تاہم، ان کے اہل خانہ کے مطابق ضیا کو ایک جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ انہوں نے 17 سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید ایک شخص کو اس طرح شہید کرنے اور بھارتی فورسز کے ظلم پر بھی سوال اٹھایا۔
ضیا مصطفی ولد عبدالکریم برمگ کلاں تحصیل راولاکوٹ ضلع پونچھ آزاد جموں و کشمیر کا رہائشی تھا جسے بھارتی فورسز نے 13 جنوری 2003 کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ نادانستہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کرکے دوسری جانب چلا گیا تھا۔ ضیا کے بھائی عامر حامد کے مطابق ایل او سی پار کرنے کے وقت ضیا مصطفی کی عمر15 سال تھی۔
بھارت نے اس کی گرفتاری کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں، کیونکہ وہ ایجنسیاں اس کی گرفتاری کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں، اس لیے ضیا کی باقاعدہ گرفتاری مارچ 2013 میں جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد سے نادیمرگ میں دکھائی گئی، جہاں نامعلوم مسلح افرادنے 24 کشمیری پنڈتوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ .
ضیا کو شوپیاں کی ضلعی عدالت میں مقدمے کا سامنا تھا جہاں مقبوضہ کشمیر کے حکام ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرائل کورٹ نے کیس کومستردد کر دیا ۔مقبوضہ جموں کشمیر کے حکام نے جموں کشمیر ہائی کورٹ سری نگر ونگ میں فوجداری اپیل دائر کی جسے بھی خارج کر دیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں حکام نے ایک بار پھر فوجداری اپیل 39899/2018 دائر کی جس میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے ضیا مصطفی کے کیس میں تاخیر کی درخواست منظور کی گئی۔
پلوامہ واقعے (جس میں ہندوستانی مسلح افواج کے 40 اہلکار ہلاک ہوئے تھے )کے ایک دن بعد مقبوضہ کشمیر کے حکام نے ضیا مصطفی سمیت سات پاکستانی قیدیوں کو جموں جیل سے باہر منتقل کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواست دائر کی۔
حکومت پاکستان نے بھی 23 جنوری 2006 کو قیدیوں کی فہرست میں ضیا مصطفی کا نام شامل کیا اور SS382577 نمبر کے تحت ان کا اندراج کیا۔
اور اب پاکستان نے بھارتی حکومت سے پاکستانی قیدی ضیا مصطفی کی مبینہ ہلاکت پر بھی وضاحت طلب کی ۔
ہندوستانی ناظم الامور کو 27 اکتوبر 2021 کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا اور پونچھ سیکٹر میں ہندوستانی قابض افواج کے ملوث ہونے کے واقعہ میں ضیا مصطفی کی مبینہ ہلاکت پر شدید احتجاج کیا گیا۔
بھارتی ناظم الامورکو بتایا گیا کہ پاکستانی قیدی کی، جو کہ 2003 سے بھارت کی حراست میں ہے، جیل سے دور ایک ایسے مقام پر پراسرار حالات میں شہادت قابل افسوس ہے ۔علاوہ ازیں اس موقع پر بھارت میں دیگر پاکستانی قیدیوں کی حفاظت پر سنگین سوالات بھی اٹھائے گئے ۔
یہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں ۔ ماضی میں بھی ہندوستان میں پاکستانی شہری قیدی ایسے حالات میں موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ہیں۔
20 فروری 2019 کو پلوامہ واقعے کے بعد ایک قیدی، شاکر اللہ کو قیدیوں نے سنگسار کیااور اس کی موت ہوگئی۔
اس طرح کے ماورائے عدالت قتل بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشنز کی بھی خلاف ورزی ہیں جس کے تحت جنگجووں کو حراست میں لینے کے بعد قتل کرنا بھی سنگین جرم ہے۔ یہ قانون پوری دنیا میں رائج ہے کہ گرفتار افراد کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور ماورائے عدالت قتل کو کسی بھی قانون کے تحت جائز نہیں ٹھہرایا جاتا۔ تاہم، بھارتی فورسز کشمیری نوجوانوں کو جعلی اور مظاہروں میں شہید کرکے ایسے تمام اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
بھارتی فورسز کے اہلکار 19 جنوری سے اب تک 7,207 سے زائد کو حراست میں لے کر شہید کرچکے ہیں اور 10,000 سے زائد بے گناہ کشمیری لاپتہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button