دس نوزائیدہ بچوں کی موت نے ترکیہ کے صحت کے نظام پر لاکھوں کا اعتماد کیوں ختم کردیا؟
ویب ڈیسک —
32 سالہ ماں نے سوچا کہ اس کا بچہ وقت سے ڈیڑھ ماہ قبل پیدا ہونے کے باوجود صحت مند نظر آتا ہے، لیکن اسپتال کا عملہ اسے فوری طور پر نوزائیدہچوں کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں لےگیا۔
یہ آخری بار تھی جب برژو Gokdeniz نے اپنے بچے کو زندہ دیکھا۔انچارج ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ امت علی کی حالت غیر متوقع طور پر بگڑجا نے کے بعد اس کا دل بند ہو گیا۔
ای کامرس کی ماہر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اپنے بیٹے کی پیدائش کے 10 دن بعد اسےکفن میں لپٹا دیکھنا ان کی زندگی کا "بدترین لمحہ” تھا۔
برژو اور ان کے شوہر ان سینکڑوں والدین میں شامل ہیں جو ترک استغاثہ کی جانب سے47 ڈاکٹروں، نرسوں، ایمبولینس ڈرائیوروں اور دیگر طبی کارکنوں پر 10نوزائیدہ بچوں کی موت میں غفلت یا بددیانتی کا الزام لگائے جانے کے بعد، اپنے بچوں یا دیگر عزیزوں کی موت کی تحقیقات کروانے لیے آگے آئے ہیں۔
ترکیہ ایک ایسے نظام کے ذریعے تمام شہریوں کو صحت کی دیکھ بھال کی ضمانت دیتا ہے جس میں نجی اور سرکاری ادارے شامل ہیں۔ حکومت ان نجی اسپتالوں کو معاوضہ دیتی ہے جو سرکاری نظام پر زیادہ بوجھ ہونے پر اہل مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
صدر رجب طیب ایردوان کی حکمران جماعت، 2002 سے اقتدار میں ہے، ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کے ملک میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی نجی سہولیات کو فروغ دے رہی ہے۔
نوزائیدہ بچوں کی اموات کے معاملے نے ملک کے سب سے زیادہ کمزور اور نازک مریضوں کے لئے منافع بخش صحت کی دیکھ بھال کو انتہائی خوفناک طور پر اجاگر کیا ہے۔
طبی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نےان نازک مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ممکنہ بہترین فیصلے کیےتھے، اور اب انکے ناگزیر نتائج کے لیے انہیں مجرمانہ سزاؤں کا سامنا ہے۔
صدمے سے ٹوٹے ہوئے والدین کا کہنا ہے کہ ان کا سسٹم پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ غفلت کے الزامات والے ان کیسز نے اس قدر غم و غصے کو جنم دیا ہے کہ اکتوبر میں مظاہرین نے ایسے اسپتالوں کے باہر احتجاج کیا جہاں کچھ اموات ہوئی تھیں اور ان عمارتوں پر پتھراؤ کیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اناطولیہ نے رپورٹ کیا ہے کہ استغاثہ نے یہ نہیں بتایا کہ ملزمان نے مبینہ طور پر کتنی کمائی کی۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد، کم از کم 350 خاندانوں نے استغاثہ، وزارت صحت یا صدر کے دفتر سے اپنے پیاروں کی موت کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔
استغاثہ کا مقدمہ
استغاثہ مرکزی ملزم ڈاکٹر فرات ساری،کو 583 سال قید کی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جنہوں نے استنبول کے کئی ہسپتالوں کے نوزائیدہ انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کو چلایا۔ ساری پر "جرم کرنے کے مقصد سے ایک تنظیم قائم کرنے، سرکاری اداروں کو دھوکہ دینے”، "سرکاری دستاویزات کی جعلسازی” اور "غفلت سے قتل” کا الزام ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ ثبوتوں سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ منافع کے لیے میڈیکل فراڈ کیا گیا تھا۔ اس ماہ جاری ہونے والی فرد جرم میں ملزمان پر غلط ریکارڈ بنانے، اور مریضوں کو کچھ نجی اسپتالوں میں نوزائیدہ نچوں کی انتہائی نگہداشت وارڈوں میں طویل اور بعض اوقات غیر ضروری علاج کے لیے بغیر کسی سہولت یا نگہداشت کے رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
فرد جرم اور نرسوں کی جو گواہی سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو بعض اوقات ایسے اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا تھا جہاں کارکنوں کی کمی تھی اور ان کے پاس پرانے آلات یا ناکافی ادویات تھیں۔
فرد جرم اور شہادتوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزمان نے علاج کئے بغیر والدین کو جھوٹی رپورٹیں دیں تاکہ اسپتال میں زیادہ سے زیادہ قیام کیا جا سکے اور سوشل سکیورٹی سسٹم سے مزید رقوم وصول کی جاسکیں۔ فرد جرم میں الزام لگایا گیا ہے کہ طویل مدتی قیام کےساتھ ساتھ مریضوں کے ساتھ بدسلوکی کے نتیجے میں بچوں کی موت واقع ہوئی۔
مبینہ جرائم کے ثبوت
استغاثہ کے دفتر نے فرد جرم میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل آڈیو ریکارڈنگ کے ٹرانسکرپٹس کو شامل کیا تھا، لیکن خود ریکارڈنگ کو عوام کے لیے دستیاب نہیں کیا گیا۔
ان میں سے ایک میں، ایک نرس اور ایک ڈاکٹر اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک بچے کے علاج میں غلطی کی اور انہوں نے اسپتال کا جعلی ریکارڈ بنانے پر اتفاق کیا۔ ٹرانسکرپٹ میں نرس کو یہ کہتے ہوئے بیان کیا گیا ہے: "مجھے فائل میں لکھنے دو کہ بچے کی حالت خراب ہو گئی تھی، اور بچے کو انٹیوبیٹ کیا گیا۔”
ڈاکٹر فرات ساری پر مریضوں کی دیکھ بھال سے سمجھوتہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایک نرس حقانی نے بتایا کہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ڈاکٹر کی موجودگی کے بجائے صرف اس کو اسپتال میں انچارج چھوڑ دیا گیا۔
ترکیہ تمام شہریوں کو صحت کی دیکھ بھال کی ضمانت دیتا ہے، اور اس کا صحت عامہ کا نظام ان نجی اسپتالوں کو معاوضہ دیتا ہے جو اہل مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ صدر رجب طیب یردوان کی حکمران جماعت، 2002 سے اقتدار میں ہے، 85 ملین لوگوں کے ملک میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے نجی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی توسیع کو فروغ دے رہی ہے۔
خاندانوں کےالمیے
برسوں کے فرٹیلیٹی کے علاج کے بعد، اولاد کے خواہشمند ااوزان ایسکیکی اور ان کی اہلیہ نے 2019 میں جڑواں بچوں — ایک بیٹے اور بیٹی کا ساری کے ایک اسپتال میں استقبال کیا۔ لڑکی کو 11 دن کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا لیکن بیٹا 24 دن بعد فوت ہو گیا۔
1,400 صفحات پر مشتمل فرد جرم کے مطابق، استغاثہ کی طرف سے پوچھ گچھ کے دوران، ساری نے ان الزامات کی تردید کی کہ بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی، یہ کہ نوزائیدہ یونٹوں میں عملہ کم تھا یا اس کے ملازمین مناسب طور پر کام انجام دینے کےاہل نہیں تھے،انہوں نے استغاثہ کو بتایا: "سب کچھ طریقہ کار کے مطابق ہوا۔”
اس ہفتے، استنبول کی ایک عدالت نے فرد جرم عائد کرنےکی منظوری دی – جس میں مشتبہ افراد کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی خفیہ طور پر ٹیپ کی گئی ریکارڈنگز کے سینکڑوں صفحات شامل ہیں، مقدمے کی سماعت کی تاریخ 18 نومبر مقرر کی گئی ہے۔
معاشرتی ردعمل
جس طرح سے اس کیس نے قوم کو خوفزدہ کیا ہے اس نے ملزمان کو تیزی سے معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔
وکیل علی کاراوگلان نے کہا کہ وہ اور دو دیگر وکیل جنہوں نے تفتیش کے دوران ساری کی نمائندگی کی تھی حال ہی میں اس کیس سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
حکام نے اس کے بعد ملزمان کے لائسنس منسوخ کر دیے ہیں اور اسکینڈل میں ملوث 19 اسپتالوں میں سے نو کو بند کر دیا، جن میں ایک اسپتال سابق وزیر صحت کی ملکیت ہے۔
ترکیہ کی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کے رہنما اوزگور اوزیل نے اسکینڈل میں ملوث تمام اسپتالوں کو ریاست کے قبضے میں لینے اور قومیانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایردوان نے کہا کہ ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے گی لیکن انہوں نے تمام تر الزام ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر عائد کرنے کے خلاف خبردار کیا۔
صدر ایردوان نے مبینہ مجرموں کو "انسانیت سے عاری افرادکا گروہ” قرار دیتے ہوئے کہا، "ہم اپنی صحت کی دیکھ بھال کرنے والی کمیونٹی کو چند گلے سڑے سیبوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہونے دیں گے۔”
صدر ایردوان نے کہا، "اس گینگ نے… شہریوں کے لیے اعلیٰ معیار کی اور زیادہ قابل رسائی، سستی صحت کی دیکھ بھال یقینی بنانے کے لیے ریاست کی طرف سے فراہم کردہ سہولیات کا استحصال کرتے ہوئے اس طرح کے گھناؤنے مظالم کا ارتکاب کیاہے۔”
یہ رپورٹ اے پی کے متن پر مبنی ہے۔