تعلیم و صحت

طلباء سیاست سے آخر خوف کیوں ؟

ڈاکٹر شاہد سرویا

فیض امن میلہ کے موقع پر کچھ نوجوان طلبہ اور طالبات کےایک نئے انداز سے احتجاج نے کئی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ سرخ اور سبز کی بحث ایک بار پھر منظرعام پر آئی۔ کچھ لوگوں نے ان نوجوانوں کے اپنے طریقے سے آواز اٹھانے کے طریقے کو سراہا اور کچھ نے واضح اعتراض اٹھایا۔ کئی تو سخت تنقید تک چلے گئے۔

چند روز پہلے ہی تعلیمی زاویہ ویب سائیٹ پر ایک بلاگرکی تحریر میں سوال اٹھایا گیا کہ اگر سٹوڈنٹ یونین پر پابندی ہے تو پھر اس کی جگہ سٹوڈنٹ سوسائٹیز کو دی جائے۔ کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں طلبہ کے اندر کی آواز کو باہر تو آنا چاہیے۔

ان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم تو چاہیے۔ اگر یونین نہی تو پھر سوسائٹی ہی سہی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے سٹوڈنٹ یونین کیوں نہی؟ مسئلہ کیا ہے۔ کس بات کا ڈر ہے۔ اس سے احتراز کیوں؟

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایک بات تو واضح ہے کہ کسی بھی سیاسی یا مزہبی تحریک کی کامیابی کی بنیاد نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ان میں بھی اہم کردار یونیورسٹی اور کالج کے سٹوڈنٹس ادا کرتے ہیں۔ تحریک خلافت ہو یا تحریک پاکستان یا پھر تحریک انصاف کی موجودہ جدوجہد نوجوانوں کا کردار ڈھکا چھپا نہی۔ تیونس میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے اہم کردار نے صدارتی الیکشن میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر کو کامیابی دلائی۔

پاکستان بھر میں کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ تنظیمات کے الیکشن ہوتے تھے۔ تنظیمات اور ان کی لیڈرشپ ملک کے اہم امور میں اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر موجود ہوتی لیکن 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے ان پر پابندی لگا دی جو کہ عملا کبھی بھی نہی رہی۔ جہاں الیکشن ہوتے تھے وہاں قبضے ہو گئے۔ پھر 90 کی دہائی میں آپ کو ارشد امین اور عاطف چودھری جیسے نام سننے کو ملنے لگے۔

آج بھی کئی سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجز میں داخلوں میں ایسی تنظیمات کا واضح کردار ہے۔ کنٹینز پر قبضے اور بھتے آج بھی چل رہے ہیں۔ ایک اہم سوچ یہ بھی ہے کہ اگر طلبہ تنظیمات پر پابندی نہ لگتی تو جامعات اور اعلی تعلیمی اداروں سے قابل لیڈرشپ قوم کو دستیاب ہوتی۔ طلبہ تنظیمات پر پابندی سے تعلیمی اداروں پر قبضہ کا ایک نیا طریقہ دریافت ہوا۔ اداروں میں مکالمہ کا رجحان ختم ہوا۔

سوچوں پر پہرے لگانے کی کوشش نے آپس میں نفرت کا کلچر پیدا کر دیا۔ مخالف بیانیہ کو سننے کا حوصلہ ختم ہوا۔ تو مشال جیسے واقعات نے جنم لیا۔ ڈر اور خوف کی سائے پھیلائے تو سوچیں بھی محدود ہو گئیں۔ مباحثہ گیا، مکالمہ گیا اور ہم ایک عجیب قسم کی نفرت کا شکار ہو گئے۔ اب آپ کو جہانگیر بدر، غلام عباس، لیاقت بلوچ اور جاوید ہاشمی کیوں نہی مل رہے۔

بلاگر حسنین جمیل فریدی نے درست نشاندہی کی ہے۔ اس ملک میں سیاسی شعور پر سب سے بڑی ضرب اس وقت لگی جب طلبہ تنظیمات پر پابندی لگی۔ اگر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آپس کے لڑائی جھگڑوں کو روکنا ہے تو پچھلے دو سال قائد اعظم یونیورسٹی میں کیا ہوتا رہا اور اب امن کیوں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مسائل کیوں رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں طلبہ تنظیمات میں ہر کوئی شامل ہو ہی نہی سکتا ایک خاص خمیر کے لوگ ہوتے ہیں جن میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ جن کی اندر لیڈرشپ ہوتی ہے۔ جو اجتماعی حقوق کی جنگ میں سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ تنظیمات میں رہتے ہوئے۔ نوجوانوں میں نظم آتا ہے۔ ٹھہراؤ آتا ہے۔ تربیت ہوتی ہے۔ آپ ارد گرد اگر نظر دوڑائیں تو آپ کو پرائیوٹ سیکٹر کے بہترین تعلیمی اداروں کے پیچھے ایسی تربیت لئے اشخاص ملیں گے۔

اس سے ہٹ کے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم طلبہ کی صلاحیت کے مطابق ان کی رہنمائی کر رہے ہیں اسے آگے بڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ اس لیے سٹوڈنٹ سوسائیٹیز کا ماڈل قابل عمل ہے۔ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی طرز پر باقی یونیورسٹیز میں اس کو عملی شکل دی جائے۔ نوجوان نسل کو کلاس رومز سے باہر بھی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ چاہے سپورٹس ہوں، میوزک ہو یا کوئی اور فن۔ اعلی تعلیمی اداروں کے اندر ان کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو گا۔

ایک حالیہ پیش رفت یہ ہے کہ سندھ میں طلبہ تنظیمات پر پابندی ختم کی جا رہی ہے۔ جو کہ خوش آئند ہے۔ پنجاب اس طرح کا حوصلہ پیدا کر سکے گا؟ کیونکہ مسئلہ سرخ یا سبز کا نہی مسئلہ دوسروں کی آواز سننے کا ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا ہے۔ کیونکہ آواز سرخ کے لیےبھی ہو سکتی اور سبز کے لیے۔ ہم کسی سے اظہار رائے کا حق نہیں چھین سکتے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button