اکرم پہلوان نے کیا صرف خاندانی وقار کی خاطرانوکی سے کُشتی لڑی؟

12 دسمبر1976 کو مشہور بھولو خاندان سے تعلق رکھنے والے اکرم پہلوان جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں جاپانی پہلوان انتونیو انوکی سے مقابلے کے لیے رنگ میں اترے تھے تو ہزاروں کی تعداد میں وہاں موجود جذباتی شائقین کو صرف اس منظر کا شدت سے انتظار تھا کہ اکرم پہلوان ایک ہی داؤ میں اپنے جاپانی حریف کو ِچت کر دیں گے لیکن کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ اکرم پہلوان جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ انوکی کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرتے۔
اکرم پہلوان کے بھتیجے اور بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو اس واقعے کو 44 سال گزر جانے کے بعد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹمیرے چچا یہ کشتی طے ہو جانے کے بعد سخت بیمار ہوگئے تھے۔ ان کی شوگر خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ میرے والد بھولو پہلوان نے بھی یہ بات واضح طور پر محسوس کی تھی کہ اکرم پہلوان سے اس کشتی کی وہ تیاری نہیں ہو پا رہی جو ہونی چاہیے۔ وہ پوری توانائی سے ورزشیں نہیں کر پا رہے تھے۔‘

کشتی لڑنے سے روکا کیوں نہیں؟
ناصر بھولو سے سوال تھا کہ اگر اکرم پہلوان کی ایسی حالت ہوگئی تھی تو انہیں کشتی سے روکا کیوں نہیں گیا اور یہ مقابلہ منسوخ کردیا جاتا۔
ناصر بھولو کہتے ہیں ʹدراصل انوکی اور باکسر محمد علی کے درمیان ہونے والے مقابلے کے بعد میرے چچا نے انوکی کو لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ اب اگر وہ مقابلہ کرنے سے منع کر دیتے تو یہ ہماری خاندانی روایات کے منافی بات ہوتی۔ وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی لیے مکمل صحت مند نہ ہونے کے باوجود انھوں نے رنگ میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن سچ تو بہرحال سچ ہوتا ہے، حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ میرے چچا اس وقت وہ کشتی لڑنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ʹ
ناصر بھولو اس بات کو بہرحال فخریہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا نے اس حالت میں بھی انوکی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور مقابلے کو تیسرے راؤنڈ تک لے جانے میں کامیاب رہے تھے۔
کیا یہ بے جوڑ کشتی تھی؟
عام خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کشتی میں دونوں پہلوان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت انوکی کی عمر 33 سال تھی جبکہ اکرم پہلوان 43 سال کے ہوچکے تھے۔
رستم زماں گاماں پہلوان پر 1962 میں شائع ہونے والی کتاب میں فہیم الدین فہمی اکرم پہلوان کی تاریخ پیدائش 1933 بتاتے ہیں لیکن ناصر بھولو کا کہنا ہے کہ انوکی سے لڑتے وقت اکرم پہلوان تقریباً پچاس سال کے ہوچکے تھے۔

کشتی میں کیا ہوا؟
اکرم پہلوان اور انوکی کے درمیان ہونے والی یہ کشتی چھ راؤنڈ پر مشتمل تھی۔ دونوں پہلوانوں نے محتاط انداز میں ابتدا کی اور ایک دوسرے پر داؤ آزمانے شروع کیے۔ اس دوران ایک دوسرے کو نیچے بھی گرایا لیکن فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ دو راؤنڈ میں دونوں کی طرف سے کوئی خطرناک داؤ نظر نہیں آیا۔
تیسرے راؤنڈ کا آغاز ہوا لیکن دوسرے ہی منٹ میں مقابلہ اس وقت روک دیا گیا جب انوکی کے آرم لاک نے اکرم پہلوان کو بچ نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس دوران اکرم کے کارنر سے ان کے بھائی اور دیگر ساتھی رنگ میں داخل ہوگئے۔ اس موقعے پر دونوں جانب سے خاصی گرما گرمی دیکھنے میں آئی جس پر انوکی نے جو خاصے ُپرسکون نظر آرہے تھے اشارے سے اپنے ساتھیوں کو رنگ سے باہر جانے کے لیے کہا۔
انوکی ہاتھ فضا میں بلند کرکے اپنی جیت کا اعلان کر رہے تھے اور اس کے بعد شائقین کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے وہ رنگ سے نیچے اترے اور چلے گئے۔ دوسری جانب اکرم پہلوان ٹی وی کیمرے کے سامنے انوکی پر منفی انداز اختیار کرنے کا الزام عائد کر رہے تھے۔
ناصر بھولو جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں کہتے ہیں ’انوکی نے اکرم کو آرم لاک لگایا جس سے ان کا بازو ُاتر گیا۔ دراصل ان کا بازو پہلے بھی ُاتر چکا تھا اور جب یہ ایک بار اتر جائے تو پھر یہ بار بار ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اس کشتی کی ویڈیو دیکھی ہو تو انوکی مسلسل اکرم پہلوان کی آنکھوں کو مسل رہے تھے اور جہاں انہیں موقع ملتا وہ انگوٹھا بھی آنکھوں میں مار رہے تھے جو قواعد و ضوابط کے خلاف بات تھی۔‘
ٹیلی ویژن پر براہ راست کوریج
انوکی اور اکرم پہلوان کی یہ کشتی ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی۔ اس کوریج کے نگراں پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر پروڈیوسر اطہر وقار عظیم تھے۔

اطہر وقار عظیم کہتے ہیں ’ایس ایم نقی کے علاوہ ہمارے ڈائریکٹرز مصلح الدین اور زبیر صاحب اس مقابلے کی کمنٹری کر رہے تھے۔ اس موقعے پر جاپانی ٹیلی وژن کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہیں ہم نے لائیو کوریج فراہم کی تھی۔ یہ کوریج چھ کیمروں سے کی گئی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ کوئی بھی لمحہ نظر سے نہ رہ جائے لیکن یہ مقابلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا تھا۔‘
اکرم پہلوان نے یوگنڈا کے صدر کو بھی ہرایا تھا۔ اکرم پہلوان کے چچا رستم زماں گاماں پہلوان تھے جبکہ ان کے والد امام بخش پہلوان رستم ہند تھے۔ اکرم پہلوان نے اپنے کریئر میں کئی مشہور کشتیاں لڑیں اور اپنے دور کے کئی بڑے پہلوانوں کو شکست دی۔
جس نیشنل سٹیڈیم کراچی میں انہیں انوکی نے شکست دی اسی میدان میں انھوں نے 1965 میں انڈین پہلوان ہردم سنگھ کو ہرایا تھا۔
اکرم پہلوان نے 1953 میں افریقہ کے دورے میں کئی یادگار مقابلے جیتے تھے۔ کینیا میں انھوں نے وہاں کے چیمپئن مہندر سنگھ کو شکست دی۔
اسی دورے میں اکرم پہلوان نے یوگنڈا کے سب سے طاقتور پہلوان عیدی امین کو بھی شکست سے دوچار کیا جو بعد میں یوگنڈا کے صدر بنے تھے۔

اکرم پہلوان اپنے کریئر میں صرف چار پہلوانوں سے ہارے جن میں لاہور کے کالا پہلوان، آسٹریلیا کے بگ ِبل ورنا، ڈنمارک کے اینٹن گِیزنک اور جاپان کے انوکی شامل ہیں۔ انوکی سے ہونے والی کشتی ان کے کریئر کا آخری مقابلہ ثابت ہوئی۔
اکرم پہلوان نے اپنے آخری ایام بہت تکلیف میں گزارے۔ علاج کے لیے انہیں انگلینڈ اور انڈیا کے ہسپتالوں میں بھی داخل ہونا پڑا لیکن شوگر کا مرض اتنا بڑھ گیا کہ ان کی ان کی ٹانگ بھی کاٹ دی گئی تھی۔ ان کی وفات 12 اپریل 1987 کو لاہور میں ہوئی۔
ناصر بھولو کہتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا کہ شوگر کی وجہ سے ان کے گردے خراب ہوگئے تھے۔ خاندان کے ان مشہور پہلوانوں نے کبھی بھی اپنے علاج معالجے پر توجہ نہیں دی جس کا انہیں افسوس ہے۔
انوکی کی جھارا سے کُشتی
اکرم پہلوان کی انوکی سے شکست کے بعد ان کے خاندان کی دوسری نسل بھی انوکی کے مدمقابل آئی۔ سترہ جون 1979 کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہونے والے اس مقابلے میں انوکی کے مقابلے پر زبیر عرف جھارا پہلوان تھے جو بھولو پہلوان کے چھوٹے بھائی اسلم پہلوان کے بیٹے تھے۔
پانچ راؤنڈ کی یہ کشتی برابر رہی تھی لیکن اختتام پر انوکی نے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کیا جس پر جھارا کے ساتھیوں نے جشن منانا شروع کردیا تھا۔ اس کشتی کے ریفری نے بعد میں کمنٹری باکس میں آکر یہ بتایا کہ انوکی کی جانب سے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جھارا اس کُشتی کے فاتح ہیں۔

انوکی جھارا کے بھتیجے کو جاپان لے گئے
انوکی نے اکرم پہلوان کو ہرانے کے بعد بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو کو جاپان آنے کی دعوت دی تھی اور اس سلسلے میں ان کے پروموٹر کو خط بھی لکھے تھے لیکن بھولو پہلوان نے اپنے بیٹے کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن بعد میں انوکی جھارا پہلوان کے بھتیجے اور اسلم پہلوان کے پوتے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کرسکیں۔