جموں و کشمیر

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا آباد کار نوآبادیاتی ایجنڈا

حافظ محمد ہارون عباس قمر


اہم نکات

  1. ہندوستان کی دیہی ترقی کی وزارت نے 2023-24 کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں 199,550 نئے مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرر کیا  جو 2021 میں رپورٹ کیے گئے 19,047 بے زمین لوگوں کے لیے ہیں۔ بے زمین افراداور مکانات کی تقسیم کے اعداد و شمار میں بڑے پیمانے پر تفاوت  ہے اورزائد مکانات  ممکنہ طور پر غیر کشمیری آباد کاروں کو مختص کیے جائیں گے۔

  2. اگر سستی ہاؤسنگ پالیسی کو لاگو کیا جاتا ہے، تو اس میں ممکنہ طور پر تقریباً 10 لاکھ افراد شامل ہو سکتے ہیں۔

  3. حکومت ہند اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں "جان بوجھ کر ابہام” برقرار رکھے ہوئے ہے۔


آبادکار نوآبادیاتی” کی اصطلاح ان لوگوں یا گروہوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی نوآبادیاتی طاقت کے تحت ایک نئی زمین یا علاقے میں آباد ہو کر وہاں کی مقامی آبادی کو تبدیل کرتے ۔ اس عمل میں نوآبادیاتی طاقت کی طرف سے منصوبہ بند آبادکاری، وسائل کا استحصال، اور مقامی ثقافت اور معاشرتی نظام کو تبدیل کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر مقامی آبادی کے حقوق اور وسائل کو نقصان پہنچتا ہے اور انہیں معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگست 2019 میں، مودی حکومت نے اپنے دائیں بازو کے حامیوں کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خودمختاری کو یکطرفہ طور پر ختم .
جہاں آرٹیکل 370 کو اکثر بڑے پیمانے پر علامتی طور پر دیکھا جاتا تھا، وہیں آئین کے آرٹیکل 35-A نے کشمیری شناخت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آرٹیکل 35-A نے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو "مستقل باشندوں” کی تعریف کرنے کا خصوصی اختیار دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مقامی حکومت مستقل رہائشیوں کو خصوصی مراعات )جیسے کہ زمین خریدنے کا حق(تفویض کر سکتی ہے۔
اگرچہ ماضی میں،بھارت کے ان اقدامات کو نوآبادیاتی تناظر میں دیکھا جاتاتھا، لیکن علاقے کی خودمختاری کی تنسیخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل کو آبادکار نوآبادیاتی عمل کہنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ آبادکاری نوآبادیات ایک آبادکار طبقے کے قیام کے گرد گھومتی ہے جس کا مقصد نہ صرف مقامی زمین پر قبضہ کرنا ہے بلکہ ان کی مخالفت کرنے والے مقامی لوگوں کا قلع قمع کرنا بھی ہے۔
مئی 2020 میں، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے ایک نیا ڈومیسائل قانون متعارف کرایا۔ اس قانون کی رو سے وہ افراد،جو ایک مخصوص مدت سے خطے میں مقیم ہیں، اور مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہیں، ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
جون 2021 تک، مقبوضہ کشمیر میں انتظامیہ نے 3.8 ملین سے زیادہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں 900,000 سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں اور علاقے میں موجود 600,000 سے زیادہ تارکین وطن مزدوروں کو بھی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا جاسکتا ہے۔ آرٹیکل 35-A ،جو وسیع تر آرٹیکل 370 فریم ورک کا حصہ تھا، کو ہٹانے سے غیر رہائشیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد خریدنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ آبادیاتی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ دوسری ریاستوں سے زیادہ لوگ خطے میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی کے بعد حکومت 2019 سے اب تک اس علاقے میں 600 سے زیادہ جائیدادوں کو سیل کر چکی ہے۔ اور 4000 سے زیادہ جائیدادیں بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست ضبطی میں شامل کی گئی ہیں۔
ہندوستان کا آباد کار استعماری ایجنڈا یہیں نہیں رکتا۔ جولائی 2023 میں،مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئی دہلی کے مقرر کردہ انتظامی سربراہ نے بے زمین لوگوں کے لیے سستی رہائش اور زمین فراہم کرنے کے لیے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی میں وزیر اعظم ہاؤسنگ سکیم کے تحت پانچ مرلہ اراضی اور مکانات تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ۔مزید برآں، وفاقی دیہی ترقی کی وزارت نے مالی سال 2023-24 کے لیے خطے میں معاشی طور پر کمزور طبقات اور کم آمدنی والے گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے 199,550 نئے مکانات بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ تاہم حکومت ہند اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں "جان بوجھ کر ابہام” برقرار رکھے ہوئے ہے۔
بے زمین افراد کی تعداد اور مکانات کی تقسیم کے اعداد و شمار میں بڑے پیمانے پر فرق ہے اورزائد مکانات ممکنہ طور پر غیر کشمیری آباد کاروں کو مختص کیے جائیں گے۔ یہ معاملہ کافی مشکوک ہے۔
الجزیرہ نے اپنی اگست 2023 کی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ، 2021 میں اس خطے میں بے زمین افراد کی تعداد 19,047 تھی۔ "ممکنہ طور پر، 199,550 نئے مکانات کی الاٹمنٹ میں دیگر ریاستوں سے تارکین وطن جیسے مزدور، چھابڑی فروش، اور رکشہ چلانے والے شامل ہوں گے۔ تاہم، جموں و کشمیر ہاؤسنگ بورڈ کے مطابق، کوئی بھی ہندوستانی شہری جو عارضی طور پر یا مستقل طور پر ملازمت، تعلیم، یا ‘طویل مدتی سیاحتی دورے’ کے لیے آیا ہے، درخواست دینے کا اہل ہوگا۔ اگر سستی ہاؤسنگ پالیسی کو لاگو کیا جاتا ہے، تو اس میں ممکنہ طور پر تقریباً 10 لاکھ افراد شامل ہو سکتے ہیں۔
پیٹرک وولف نے اپنی کتاب "Settler Colonialism and the Elimination of the Native” میںآبادکاری نوآبادیاتی نظام جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 کے برعکس قرار دیا ہے، جونوآبادیات کو اس کی تمام شکلوں میں غیر مشروط طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ عوام کا غیروں کی محکومیت، تسلط اور استحصال کے تابع ہونا بنیادی انسانی حقوق سے انحراف ہے۔
14 دسمبر 1960 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والا یہ اعلامیہ استثنیِ کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ روایتی نوآبادیاتی سلطنتیں سطحی طور پر منہدم ہوئیں، لیکن "دوسرے” پر غلبہ حاصل کرنے کی بنیادی جبلت اور مہم جوئی برقرار رہی۔ نتیجتاً، ماضی کی استعماریت ختم نہیں ہوئی۔ اس کی بجائے، یہ قدیم و جدید دونوں اقوام میں برقرار رہی،اسی کو ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں لاگو کر رہا ہے۔
دریں اثنا، Lorenzo Veracini نے اپنی کتاب "Introducing: Settler Colonial Studies” میں کہا ہےکہ آباد کار استعمار اور نوآبادیات جبر کے الگ الگ لیکن ایک دوسرے سے منسلک مظاہر ہیں۔روایتی نوآبادیات کارمقامی افراد سے اپنے لیے کام کرنے کامطالبہ کرتے ہیں، جبکہ آباد کار نوآبادیات حکمااس علاقے کے مقامی افراد کو بے دخل کرتے ہیں تاہم، دونوں منصوبوں میں بنیادی طور پر ہجرت اور قبضے کا عنصر شامل ہے۔ آبادکاری نوآبادیات اس وقت ہوتی ہے جب ریاست ان آبادکاروں کو بھرتی کرتی ہے جن کا مقصد نہ صرف مقامی زمین پر قبضہ کرنا بلکہ مقامی مزاحمت کو ختم کرنا بھی ہوتا ہے۔
ڈومیسائل قوانین جو ہندوستان کے آباد کار نوآبادیاتی ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں انہیں کچھ مقامی سیاسی جماعتوں اور رہائشیوں کی مخالفت کا سامنا ہے جن کا کہنا ہے کہ اس سے علاقے کی منفرد شناخت اور آبادیاتی ساخت کو نقصان پہنچا ہے۔
ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے غیر کشمیریوں کی مصدقہ تعداد کا الگ سے ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاسکا، لیکن مجموعی طور پر 3.8 ملین ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجراء مقبوضہ علاقے کے قانونی رہائشی فریم ورک میں نئے داخل ہونے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی نشاندہی کرتا ہے۔

1960کے بعد سے، آبادکار استعمار نے متعدد عالمی برادریوں میں امریکہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مقامی لوگوں سے لے کر فلسطینیوں اور کشمیریوں کو متاثر کیا ہے۔بدقسمتی سے، دنیا بھر میں آباد کار استعماری قوتوں کا پھیلاؤ کم نہیں ہوا ہے۔ بھارت میں 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد، کچھ تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ بھارت کے اس خطےسے تعلقات آباد کار استعمار کی مکمل شکل میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button